کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 82
فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ﴾ [التحریم: ۱۱، ۱۲] [اور الله نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا: اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔ اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی] حاصل یہ کہ ایمان مضبوط ہونا چاہیے، اگر ایمان مضبوط ہے تو نجات ہے، جس طرح زنِ فرعون کہ عورت ہو کر کامل الایمان تھیں تو فرعون کی زوجیت و معیت اور اس کا ظلم ان کے ایمان اور عاقبت کے لیے کچھ بھی مضر نہ ہوا، اسی طرح جن لوگوں کا ایمان کامل ہے، اگرچہ ان کے عزیز و اقارب کافر ہوں ، لیکن وہ ہر گز اپنے ایسے قرابت مندوں کا لحاظ و خیال نہیں کرتے اور ان کی معیت سے پناہ اور نجات کی دعا کرتے ہیں ۔ اس تمثیل سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ جانبین تمثیل میں بصورت تحقق علاقہ زن و مرد ہونے کا اختلاف ہرگز مانعِ تمثیل نہیں ۔ الحاصل دونوں آیتوں میں دونوں مثالیں اس غرض سے دی گئی ہیں کہ کافر اور منافق سے جہاد میں تغافل و تکاسل بہ پاسِ قرابت نہ ہو اوردونوں مثالوں میں عورت ہی کی مثال دی گئی، تاکہ مردوں کو غیرت آئے کہ ایمان میں پاسِ قرابت کیسا؟ کافر باپ ہو اور خدا کی مقرر کی ہوئی شرائط پائی جائیں تو قتل کر دو، الله کے دشمن کو زمین پر حتی الامکان نہ چھوڑو اور حضرت مریم[ کی تمثیل سے اس سورۂ مبارک میں ایک فائدہ عظیم یہ ہے کہ اول سورہ میں ازواجِ مطہرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت چشم نمائی اور ان کی تعلیم ہوئی، جس طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تعلیم ہوئی: ﴿ ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۔۔۔﴾ [التحریم: ۱] [اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو الله نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟] تو اس قدر عتاب بھی منافقین کے لیے موجبِ مضحکہ اور طعن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے ساتھ ہوا، حالانکہ الله تعالیٰ نے اُن کی خطا کو عفو کر کے بڑے بڑے مراتب اور مدارج عنایت فرمائے، ۔کما سبق۔ تو الله تعالیٰ نے حضرت مریم[ کی مثل کے ساتھ ازواجِ مطہرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مومنین کو تسکین دی کہ اگر منافقین کچھ مضحکہ و طعن مقدس بیبیوں کی شان میں کر لیں تو صبر مناسب ہے، جس طرح حضرت مریم[ کو ان کی قوم نے معاذ الله زنا کی تہمت دی، مگر انھوں نے صبر کیا اور صابرین و قانتین میں داخل ہوئیں اور کفار و منافقین کے ساتھ الله تعالیٰ نے جہاد اور سختی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورہ میں حکم دیا۔ اگر مخالف کو عقل اور تمییز ہو تو اب سے بھی سنبھل جائیں اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کی شان پاک میں بیہودہ گوئی نہ کریں ۔ سوال اول کا جواب تمام ہوا۔