کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 81
امور سے بحث ہے تو اس کا ذہن اس سوال کی طرف نہ جاتا اور ذی فہم پر تو یہ امر خوبی منکشف ہے کہ﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ سے قبل یہ آیتِ کریمہ ہے:﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ [التحریم: ۹] [اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے] صریح﴿کَفَرُوْا﴾ صیغہ جمیع مذکر غائب کا ہے اور﴿اَلَّذِیْنَ﴾ اسم موصول جمع مذکر کے لیے ہے، اس سے وہی کفار اور منافقین مقصود ہیں ،جن کا ذکر صدرِ آیت میں ہے۔ زبردستی عورتوں کی طرف وہ بھی عورتیں مومنہ وہ بھی محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کی طرف ضمیر پھیر دی جائے تو اس کا کیا علاج ہے؟ باقی رہی تمثیل امراۃِ نوح اور امراۃِ لوط کی اور شاید سائل کو اسی نے دھوکے میں ڈالا ہے تو قطع نظر اس کے کہ ممثل لہ مذکر ہے اور﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ مذکر کے لیے ہے، اصل مقصود ظاہر کیا جاتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ پہلے الله تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اور منافقین سے جہاد کا حکم دیا، اور اس لیے کہ کفار اور منافقین میں اکثر عزیز و قریب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے تھے، لہٰذا الله تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں امرا ۃِ نوح اور لوط کی مثال بیان فرمائی کہ قرابت اور معیت نبی کی کافر و منافق کو مفید نہیں ، جس طرح امرا ۃِ نوح اور لوط کو نبی کی قرابت اور معیت بوجہ کفر کے مفید نہیں ہوئی، اس جگہ عورت کی مثال میں دو نکتے ہیں ۔ اولاً یہ کہ مرد پر جس قدر بارِ کفالت زوجہ کا اور اس کو تعلق زوجہ کے ساتھ ہوتا ہے، اس قدر دوسرے قریب کے ساتھ نہیں ہوتا تو جب زوجہ کافرہ کی زوجیت نبی کے ساتھ کے باوجود بارِ کفالت و قوتِ تعلق کے کچھ مفید نہیں تو دوسری قرابت کا تعلق کافر کا نبی کے ساتھ کب مفید ہوگا؟ اس کے ساتھ جہاد اور اس کا قتل بر تقدیر کفر ہرگز محلِ تامل نہیں ۔ ثانیاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت ناقص العقل اور ناقص الفہم ہوتی ہے، اس کی شان سے وقوعِ خطا اکثری ہے، لہٰذا عورت کی گرفت بمقابلہ مرد کے مناسب نہیں ہے، لیکن کفر و شرک وہ خطا افحش ہے کہ نبی کی بیبیاں جو اس میں مبتلا ہوئیں تو ان کو نبی کی زوجیت باوجود عورت اور ناقص العقل ہونے کے کچھ کام نہ آئی، دیکھو امرا ۃِ نوح اور لوط کو، پھر جب عورتوں کا یہ حال ہے تو کفار اور منافقین جو رجال ہیں ، تو ان کو نبی کی قرابت کب کام آسکتی ہے، ان سے ضرور جہاد کرو، بلکہ﴿وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاوَاھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْر﴾ اور جب الله تعالیٰ نے کافروں کے لیے مثال دی کہ کافر کو نبی یا ولی کی قرابت کام نہیں آتی تو مومن کی قرابت کافر سے مومن کو مضر ہوگی یا نہیں ؟ تو اس کا بتانا بھی مناسب مقام ہوا، لہٰذا الله تعالیٰ نے امرا ۃِ نوح و لوط کے بعد امرا ۃِ فرعون اور حضرت مریم علیہا السلام[ کی مثال مومنین کے لیے دی۔ قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ! اِِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ* وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ