کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 80
کہ اُس میں کفر کا وہم ہو۔ بات تو یہی تھی جو حدیثوں سے سنی و شیعہ دونوں کے یہاں ثابت ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اِذن لے کر اپنے باپ کے گھر کسی ضرورت سے گئی ہوئی تھیں اور ان کی غیبت میں اُن کے فراش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ قبطیہ اپنی لونڈی کی عزت افزائی کی۔ اُسی دوران میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا لوٹ کر آگئیں اور اس امر سے مطلع ہو کر انھوں نے بہت کچھ رنج وغیرہ ظاہر کی اور رو کر کہنے لگیں کہ میری جگہ پر لونڈی سرفراز کی جائے!! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی خاطر سے فرمایا کہ ہم نے ماریہ قبطیہ کو حرام کر لیا، اس کو کسی پر ظاہر نہ کرنا، جس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی:﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ﴾ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کمال مسرت سے اور بمقتضائے اُس جبلت کے جو عورتوں میں ہوتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہہ دیا کہ حضرت نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کو دنیا کے امور سے سمجھ کر اس کی اطاعت ضروری نہ سمجھا۔ یہ قصورِ فہم ہوا۔ اس خبر کی شہرت سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج ہوا، لہٰذا الله تعالیٰ نے توبہ کی ہدایت فرمائی اور تہدید کی۔ بعض روایت میں وہ راز یوں مروی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض ازواج کے یہاں شہد پیا کرتے تھے اور بیبیوں پر یہ شاق گزرا تو صلاح کر کے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن لوگوں نے یہ بات کہی کہ آپ کے پاس سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے شہد پیا ہے، اب پھر اس کو نہ پیوں گا، اس کو کسی سے ظاہر نہ کرنا، جن بی بی سے کہا تھا، وہ کمال خوشی سے کہ اب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہد نہ پینے جائیں گے، نہ زیادہ قیام فرمائیں گے، نہ ہم لوگوں کو رشک ہوگا، دوسری بی بی سے کہہ دیا، اس پر آیت مذکور الصدر سورۂ تحریم کی نازل ہوئی۔ الحاصل روایت کوئی ہو، وہ بات جو ظاہرکی گئی، اُس کو بیبیوں نے امورِ دین سے نہ سمجھا اور یہ نہ سوچا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ظاہر کر دینے میں اگر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و اذیت ہوگی تو الله کا عتاب ہوگا۔ گو بات تو خفیف و حقیر ہے، بات محبوبِ رب قدیر کی ہے۔ آخر الله تعالیٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت جو اس بات کے افشا سے آپ کو پہنچی پسند نہ آئی، لہٰذا بیبیوں پر تہدید اور چشم نمائی کر دی اور جو کچھ ان آیتوں میں بحث ہے، الزام اول کے جواب میں مذکور ہے اور کہیں الله تعالیٰ نے ان بیبیوں کے کفر کی طرف اشارہ کیا ہے اور نہ زنانِ نوح و لوط علیہ السلام کے ساتھ ان کی مثال دی۔ ثانیاً: معلوم ہو کہ شاید سائل نے تمھیں آیتِ کریمہ:﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ﴾ [التحریم: ۱۰] [ الله نے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی، وہ ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں ] سے سمجھا ہے کہ یہ آیت بھی اول سورۂ تحریم میں ہے اور اس میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عورتوں سے بحث ہے، لہٰذا﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ کا مصداق معاذ الله حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج طیبات کو اور ان کے فعل کو معبر بکفر سمجھا، ان کی مثال امراۃِ نوح و لوط کے ساتھ دی ۔نعوذ بالله من ذلک۔ حالانکہ سائل اگر اس قدر بھی خیال کرتا کہ یہ آیت آخر سورہ تحریم میں ہے اور﴿وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ﴾ اول سورہ میں ہے، درمیان میں اور