کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 78
خصوصاً تمام عمر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہنا دلیل صریح اس کی ہے کہ وہ بیبیاں جو مفشی راز ہوئی تھیں ، بلاشک و شبہہ تائب ہوئیں اور ان کی توبہ قبول کر کے الله تعالیٰ نے جمیع صفتیں مسلمات و مومنات و قانتات و عابدات وسائحات وغیرہا کی اپنے فضل و کرم سے ان میں جمع کر دیں ۔ آیتِ کریمہ:﴿اَلطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ﴾ [النور: ۲۶] جو خاصتاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد واقعہ سورۂ تحریم کے نازل ہوئی اور کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل نہ ہوئی، جو شخص اس آیت کی تلاوت کے بعد ازواجِ مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مبشر بہ آیت کریمہ:﴿یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ﴾ [الأحزاب: ۳۲] کو خباثت اور غیر تائب ہونے کا الزام دے گا، بلاشک و شبہہ وہ شخص خبیث النفس اور بندہ ہویٰ و ہوس ہوگا۔ صرف آیتِ کریمہ:﴿اِِنْ تَتُوْبَآ اِِلَی اللّٰہِ﴾ میں تامل کرنے سے صاف ظاہر تھا کہ جب الله نے خود توبہ کی ہدایت کی اور قبولِ توبہ اس شرط کی جزا مقدر فرمائی تو ضرور وہ حضرات تائب ہوئیں ، صراحتاً ان کی توبہ کے ذکر کرنے کی کلام میں کوئی حاجت نہ تھی اور آیت:﴿اِنْ طَلَّقَکُنَّ﴾ وغیرہا تو نص ہے کہ بلاشک ان کی توبہ مقبول ہو کر مراتب و مدارج علیا سے سرفراز ہوئیں ۔ ثانیاً: ظاہر ہے کہ افشائِ راز میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ذکرِ صریح سے قرآن ساکت ہے، بلکہ ان حضرات کی طرف افشائِ راز کی نسبت صریح صرف حدیث کے رو سے کی جاتی ہے، تو جب حدیث سے ان بیبیوں کا تعین قابلِ تسلیم سمجھا گیا تو پھر حدیثوں سے اور قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھا جائے گا، جو اس سوال کے جواب میں نص قرآنی کا ہونا ضروری سمجھا گیا ہے۔ بعونہ تعالیٰ اگرچہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کا الزام سے بَری ہونا محض قرآن سے ثابت ہوگیا، پھر جب اس کا تعین حدیث ہی سے ثابت ہے تو دوسرا جواب حدیث سے لیجیے۔ صحیحین میں مروی ہے کہ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خبر کو سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ لوگوں نے یہ مشہور کر دیا ہے تو ہم کہہ دیں کہ یہ بات غلط مشہور ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کے پاس آکر بآواز بلند پکار دیا کہ حضرت کے طلاق دینے کی خبر غلط مشہور ہے اور آیتِ کریمہ:﴿وَ اِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ﴾ [النساء: ۸۳] [اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں ] نازل ہوئی۔ اسی حدیث میں سورت تحریم کے نزول کا واقعہ مروی ہے کہ جب آیتِ کریمہ:﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا * وَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [الأحزاب: ۲۸، ۲۹] نازل ہوئی، یعنی