کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 760
دو بیویاں اور دو بیٹے: سوال: زید کی دو زوجہ ایک مسماۃ رابعہ و ثانی مسماۃ ہندہ۔ مسماۃ رابعہ سے ایک پسر مسمی خالد اور مسماۃ ہندہ سے ایک پسر مسمی عمرو۔ زید نے بعد وفات مسماۃ رابعہ کے دوسری شادی مسماۃ ہندہ سے کی تھی اور مسمی خالد پسر زوجہ اولی اور مسماۃ ہندہ اور اس کے پسر عمرو کو وارث چھوڑ کر مر گیا اور زید متوفی کے متروکہ پر خالد و عمرو قابض ہیں ۔ مسماۃ ہندہ بدعویٰ حق زوجیت، یعنی ہشمی حصے کی خالد اور عمرو سے دعویٰ دار ہے۔ پس ایسی صورت میں دعویٰ ہندہ کا دونوں ۔ یعنی خالد و عمرو سے متعلق ہے یا صرف اس کے پسر صلبی عمرو سے متعلق ہے اور ایک موضع زید نے اپنی حیات میں بنام خالد و عمرو قبالہ لیا جس پر ہر دو پسران قابض و دخیل ہیں ، پس اس موضع میں اور دیگر متروکہ متوفی میں کوئی حق زوجیت ہے یا نہیں یا صرف حصہ عمرو صلبی ہیں ؟ المستفتی: محمد عثمان، عفي عنہ جواب: اس صورت میں (بعد تقدیم ما تقدم علی الارث ورفع موانعہ) ہندہ کا حق زوجیت زید متوفی کے کل متروکہ میں ہوتا ہے، خواہ وہ متروکہ از قسم اموال غیر منقولہ (زمین، حویلی، باغ وغیرہ) ہو یا از قسم اموال منقولہ ہو، اور ہندہ کا دعویٰ زید کے کل متروکہ مذکورہ بالا سے متعلق ہے، اس متروکہ پر جو شخص قابض ہو، اس پر ہندہ اپنے حق کا دعویٰ کر سکتی ہے، چونکہ خالد و عمرو دونوں اپنے متروکہ زید پر قابض ہیں ، لہٰذا ہندہ کا دعویٰ دونوں پر ہوسکتا ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد الرحمن المبارکفوري، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ راجي رحمۃ اللّٰه : أبو الہدی سلامت اللّٰه المبارکفوري، عفا اللّٰه عنہ۔ دو لڑکے، تین لڑکیاں اور ایک بیوی: سوال: زید کے ذمہ ایک مہاجن کا قرض دینا تھا۔ مہاجن نے زید پر اپنے قرض کے بارہ میں نالش دائر کر کے ڈگری حاصل کر لی اور نصف جائداد زید کی نیلام کرائی اور نصف زید کی ہمشیروں کے لیے چھوڑ دی، اس عرصے میں زید کا انتقال ہو گیا۔ زید نے اپنی تین لڑکیاں ایک بالغ دو نابالغ ایک لڑکا نابالغ ایک بیوی وارث چھوڑے۔ زید کے لڑکے اور زید کے بہنوئی اور بھانجوں نے مہاجن کو زید کی جائداد نیلام شدہ پر دخل نہیں ہونے دیا۔ کچھ عرصہ بعد مہاجن کی دکان نقصان میں آکر دوالا نکل گیا اور وہ مہاجن بھی فوت ہوگیا۔ جب زید کا لڑکا بالغ ہوا تو اس نے مہاجن کے قرض کے متعلق جو اس کا حق تھا، مہاجن کے وارثوں سے معاف کرا لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اب جو جائداد زید متوفی کی ہے، وہ اس کے ورثاء لڑکے لڑکیوں زوجہ کو ملے گی یا زید کے بہنوئی اور بھانجوں کو، جنھوں نے مہاجن کو زید کی جائداد پر دخل نہیں ہونے دیا؟ جواب: اس صورت میں وہ جائداد جو زید متوفی کی تھی، زید کے ورثہ (لڑکے لڑکیوں زوجہ) کو ملے گی، نہ کہ زید کے بہنوئی اور بھانجے کو، اس لیے کہ مہاجن کے وارثوں سے حق معاف کرا لینے کے بعد وہ جائداد زید کے وارثوں کی طرف عود کر آئی۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۶؍محرم ۱۳۲۷ھ) ٭٭٭