کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 757
گا؟ اگر سلسلہ عم الجد محدود نہیں تو عم حضرت آدم علیہ السلام کا لازم آتا ہے۔ علاوہ اس کے سلسلہ عصبیت لا یتناہی پایا جائے تو باب ذی الارحام وغیرہ بے سود ہوجاتے ہیں کہ قبائلِ عرب و نیز ہندوستان وغیرہ میں شجرہ آدم علیہ السلام تک موجود ہیں ، پس کسی وقت میں مسئلہ عصبیت کا زائل نہ ہوگا۔ امید ہے کہ مراتب کا جواب بحوالہ کتاب ارقام فرمائیں گے۔ جواب: جواب سے پہلے امورِ ذیل کا جان لینا ضرور ہے۔ 1۔عصبہ نسبیہ کی چار صنفیں ہیں : 1 جزوِ میت یعنی ابن میت، ابن الابن میت، ابن ابن ابن المیت، علی ہذا القیاس جہاں تک سلسلہ نیچے کو چلا جائے۔ 2 اصل میت یعنی اب میت۔ اب اب میت، اب اب اب میت، علی ہذا القیاس جہاں تک سلسلہ اوپر کو چلا جائے۔ 3جزء اب میت یعنی اخ المیت لاب وام یا لاب فقط۔ ابن الاخ میت لابن و ام یا لاب فقط۔ ابن ابن اخ المیت لاب و ام یا لاب فقط وعلیٰ ہذا القیاس جہاں تک سلسلہ نیچے چلا جائے۔ 4جزوِ جد میت یعنی عم لاب و ام یالاب فقط۔ 2۔ ان اصناف اربعہ میں یہ شرط ہے کہ ہر ایک از قسم ذکور ہیں ، نہ اناث اور یہ کہ بے واسطہ انثی کے میت کی طرف منسوب ہوں ، جیسا کہ عصبہ بنفسہ کی تعریف ’’ذکر لا تدخل في نسبتہ إلی المیت أنثی‘‘ اس پر دال ہے۔ 3۔ صنف چہارم میں جد سے جد صحیح (یعنی اب الاب یا اب اب الاب یا اب اب اب الاب، یعنی جس کی نسبت الی المیت میں انثی نہ داخل ہو) مراد ہے، نہ کہ جد فاسد، یعنی نانا، کیونکہ نانا خود ہی میت کی طرف بواسطہ انثی، یعنی ام کے منسوب ہے، تو جو شخص کہ بواسطہ نانا کے میت کی طرف منسوب ہو، وہ بھی بالضرور بواسطے انثی کے منسوب ہوگا اور جب وہ شخص بھی بواسطہ انثی کے منسوب ہوا تو عصبہ بنفسہ باقی نہ رہا تو یہ عصبہ بنفسہٖ کی کسی صنف میں کیونکر معدود ہوسکتا ہے؟ 4۔ صنف چہارم میں عم سے عم عینی یا عم علاتی یعنی عم لاب و ام یا لاب فقط مراد ہے، نہ کہ عم اخیافی، یعنی عم لام، کیونکہ عم اخیافی بھی میت کی طرف بواسطہ انثی، یعنی ام کے منسوب ہے۔ اب جواب سنیے: عم الجد جو عصبہ بنفسہ کی صنف چہارم کے افراد میں سے ایک فرد ہے، اس میں بھی جد سے جد صحیح مراد ہے اور وہ بھی عام، یعنی خواہ میت کا باپ ہو یا میت کے باپ کا باپ ہو یا میت کے باپ کے باپ کے باپ کا باپ ہو و علی ہذا القیاس۔ جہاں تک سلسلہ اوپر کو جائے۔ حضرت آدم علیہ السلام تک، یعنی حضرت آدم علیہ السلام بھی ہر شخص کے جد صحیح ہیں ، باستثناے حضرت مسیح علیہ السلام کے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو ان کے حق میں حضرت آدم علیہ السلام صرف جد فاسد ہی ہیں ، نہ کہ جد صحیح، چونکہ عصبہ بنفسہٖ کی ہر ایک صنف میں اصناف اربعہ سے یہ شرط ہے کہ خود از قبیل ذکر ہو اور یہ کہ صرف انثی ہی کے واسطہ سے میت کی طرف منسوب نہ ہو اور عموماً ذوی الارحام میں یہ شرط مفقود ہے، یعنی ان کی کسی صنف میں یہ شرط نہیں پائی جاتی، کیونکہ ذوی الارحام از قبیل ذکور ہی نہیں ہیں یا ہیں تو انثی ہی کے واسطہ سے میت کی طرف منسوب ہیں ، لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے مباین ہیں اور دونوں کے سلسلے الگ الگ جاتے ہیں ، کوئی کسی سے ملتبس نہیں ہے اور نہ ایک کے