کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 750
ہوگی، پس ان میں سے (۲۲۴) چار ماموؤں کو ملیں گے اور ان کو ان کی فروع پر﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ کے قاعدے پر تقسیم کر دیا جائے گا۔ باقی کے (۸۴) حصے تین خالاؤں کو ملیں گے اور ان کو مذکورہ حساب کے ساتھ ان کی فروع پر تقسیم کر دیا جائے گا۔ السراجیہ اور اس کی شرح الشریفیہ میں ہے: ’’اگر وہ میت کی طرف قرب میں برابر ہوں اور ان کی قرابت کا جزو متحد ہو، یعنی سب کی قرابت میت کے باپ یا اس کی ماں کی طرف سے ہو، تو جس کو قوت قرابت حاصل ہوگی تو بالاجماع وہی زیادہ حق دار ہوگا۔‘‘ اسی میں یہ بھی ہے: ’’اگر وہ قرب میں حسبِ درجہ اور قرابت میں حسبِ قوت برابر ہوں اور ان کی قرابت کا جزو متحد ہو تو ولدِ عصبہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘ شریفیہ میں ہے: ’’اگر وہ مجتمع ہوں اور ان کی قرابت متحد ہو تو ان میں سے جو قوی قرابت والا ہے، وہی زیادہ حق دار ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اگر ان کی قرابت برابر ہو تو پھر﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ کے قاعدے کے مطابق تقسیم ہوگی۔‘‘ السراجیہ اور الشریفیہ میں ہے: ’’پھر باپ اور ماں کے فریق میں سے ہر فریق کو جتنا حصہ ملے تو امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اول بطن میں مال تقسیم کیا جائے گا اور اصول میں فروع اور حساب کے عدد کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔‘‘ عالمگیری میں ہے: ’’پس اگر ان میں سے ایک فریق ماں کی طرف سے ماموؤں اور خالاؤں کی بیٹیوں کی صورت میں ہو اور دوسرا فریق باپ کی طرف سے پھوپھیوں اور اخیافی چچوں کی بیٹیاں ہو تو دونوں فریقوں میں ثلث اور ثلثین کے حساب سے مال تقسیم ہوگا۔‘‘ رد المحتار میں ہے: ’’اگر ان کی قرابت کا جزو مختلف ہو تو دو ثلث اس کو ملے گا، جس کا باپ کی قرابت کے ذریعے رشتہ ہے اور ایک ثلث اسے ملے گا، جس کی ماں کی قرابت کی وجہ سے رشتے داری ہے اور السراجیہ میں ہے: اور اگر ان کی قرابت مختلف ہو تو قرابتِ اَب کے لیے دو ثلث اور قرابتِ اُم کے لیے ایک ثلث ہے۔‘‘ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)