کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 75
سوم اضعف جیسے وہ لوگ جو ہاتھ سے مٹانا تو درکنار زبان سے بھی منع نہیں کر سکتے، ان کا فرض یہ ہے کہ صرف دل سے اس منکر کو برا جانیں و بس۔﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ [البقرۃ: ۲۸۶] اس بیان سے ظاہر ہوا کہ اس حدیث میں قوت اور ضعف سے ایمانی قوت اور ضعف مراد نہیں ہے، بلکہ تغییرِ منکر کے متعلق قوت اور ضعف مراد ہے، حتی کہ اگر کوئی شخص جو ایک درجے کا ایمان رکھتا ہو، جب تک وہ قسم سوم کے افراد سے ہے، اس کا فرض وہی ہے جو قسم سوم کا ہے اور جب وہ قسم سوم سے قسم دوم کی طرف ترقی کر جائے تو اس کا فرض قسم دوم کا فرض ہوجائے گا اور جب قسم دوم سے قسم اول کی طرف ترقی کر جائے گا تو اس کا فرض قسم اول کا فرض ہوجائے گا، اگرچہ ایمانی حالت اس کی بدستور ہو۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۹؍ جمادی الاولیٰ ۳۲ھ) حدیث: (( ستفترق أمتي علی ثلاث وسبعین فرقۃ )) کی صحت: سوال: حدیث: (( ستفترق أمتي علی ثلاث وسبعین فرقۃ )) درجاتِ احادیث میں کونسا درجہ رکھتی ہے؟ یہ حدیث موضوع ہے؟ (( مَا أنا علیہ وأصحابي )) اسی کا ٹکڑا ہے یا کہیں دوسری جگہ میں آیا ہے؟ مولوی شبلی نے ’’سیرۃ النعمان‘‘ میں اس کو موضوع لکھا ہے۔ [1] کیا یہ بالکل صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔ جواب: حدیث: (( ستفترق أمتي علٰی ثلاث وسبعین فرقۃ )) کو ترمذی نے اپنی سنن کی کتاب الایمان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ و عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مع سند روایت کیا ہے۔[2] اول حدیث کی نسبت یہ عبارت تحریر فرمائی ہے: ’’حدیث أبي ھریرۃ حسن صحیح‘‘ اور ثانی کی نسبت یہ لکھا ہے: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ ثانی کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی ہیں ، جو کسی قدر ضعیف ہیں ، لیکن نہ اس وجہ سے کہ فاقد صلاح و تقویٰ کے تھے، بلکہ ان کے ضعف کی اور وجہ ہے، جس سے ان کی حدیث درجہ حسن سے نازل نہیں ہوسکتی،² لہٰذا ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی اور فی الواقع ترمذی کی یہ تحسین قابلِ تحسین ہے۔ اول کی سند ہر طرح درست ہے۔ کہیں اُس میں کوئی کھونٹ نہیں ہے،[3] لہٰذا ترمذی نے اس کی تصحیح کی اور اس تصحیح میں بھی ترمذی حق بجانب ہیں ۔ ترمذی رحمہ اللہ نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ اس مضمون کی حدیث اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، چنانچہ فرمایا: "وفي الباب عن سعد وعوف بن مالک" مجھ کو ائمہ حدیث میں سے باوجود تفحص اب تک کوئی ایسا نہیں ملا، جس نے اس حدیث کی تضعیف کی ہو، فضلاً عن نسبۃ الوضع إلیہ۔ [چہ جائے کہ اس کی طرف وضع کی نسبت کی ہو] (( مَا أنا علیہ وأصحابي )) [جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ] ثانی حدیث کا ٹکڑا ہے۔[4] ہاں ایک حدیث
[1] سیرۃ النعمان از مولانا شبلی نعمانی (ص: ۱۳۲) مفید عام، آگرہ۔ [2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۰، ۲۶۴۱) [3] حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں : "ضعیف في حفظہ، وکان رجلا صالحاً" (تقریب التھذیب، ص: ۳۴۰) [4] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۱)