کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 746
صورت میں کہ احمد نے محمود کو ہنوز جائداد مذکورہ پر قبضہ نہیں دیا ہے، محمود جائداد مذکورہ کے تقسیم کرا پانے کا مستحق نہیں ہے۔ ’’روی أحمد والطبراني عن أم کلثوم بنت أبي سلمۃ، وھي بنت أم سلمۃ، قالت: لما تزوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أم سلمۃ، قال لھا: إني قد أھدیت إلی النجاشي حلۃ وأواقي من مسک، ولا أری النجاشي إلا قد مات، ولا أری ھدیتي إلا مردودۃ علي فإن رُدّت علي فھي لک، قال: وکان کما قال۔ الحدیث، وإسنادہ حسن‘‘ (فتح الباري، طبع دہلی: ۲/ ۵۴۰) [امام احمد اور طبرانی رحمہما اللہ نے ام کلثوم بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے جو اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہیں ، وہ بیان کرتی ہیں کہ جب نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ سے شادی کی تو انھیں کہا: ’’میں نے نجاشی کے پاس ایک حلہ اور چند اوقیے مسک کا ہدیہ ارسال کیا ہے، میرا گمان ہے کہ نجاشی فوت ہوگیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا ہدیہ میرے پاس واپس آجائے گا۔ اگر وہ میرے پاس آگیا تو وہ تیرا ہوگا۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ایسے ہی ہوا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔۔۔ الحدیث۔ اس کی سند حسن ہے] ’’عن مالک عن ابن شھاب الزھري عن عروۃ عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنھا قالت: إن أبا بکر الصدیق کان نحلھا جاد عشرین وسقا من مالہ بالغابۃ، فلما حضرتہ الوفاۃ قال: و اللّٰه یا بنیۃ ما من الناس أحب إلي غنیٰ بعدي منک، ولا أعز علي فقرا بعدي منک، و إني کنت نحلتک جاد عشرین وسقا فلو کنت جددتیہ واحتزیتہ کان لک لأن الحیازۃ والقبض شرط في تمام الھبۃ، وقال أبو عمر: اتفق الخلفاء الأربعۃ علی أن الھبۃ لا تصح إلا مقبوضۃ، وبہ قال الأئمۃ الثلاثہ، وقال أحمد و أبو ثور: تصح الھبۃ بلا قبض، وروي ذلک عن علي من وجہ لا یصح وإنما ھو الیوم مال وارث، وإنما ھما أخواک وأختاک فاقسموہ علی کتاب اللّٰه ‘‘ (موطأ مالک مع شرحہ الزرقانی، مطبوعہ مصر: ۲/ ۲۱۷) [امام مالک رحمہ اللہ محمد بن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں ، وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو غابہ نامی اپنی زمینی سے بیس وسق کا عطیہ دیا، پھر جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے کہا: اے بیٹی! مجھے اپنے بعد غنا کی حالت میں تجھ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں اور مجھے تیرا فقر اپنے بعد سب سے زیادہ ناگوار ہے، میں نے تجھے بیس وسق کا عطیہ دیا تھا، اگر تو ان کو توڑے اور ان کی مالک بنے تو وہ تیری ہی ہیں ۔ کیونکہ مالک بننا اور قبضہ کرنا ہبہ کے مکمل ہونے کی شرط ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے: چاروں خلفا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہبہ اس صورت میں درست ہے جب اس پر قبضہ کیا جائے۔ ائمہ ثلاثہ کا بھی یہی