کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 744
کیے ہوئے کہ ورثا کے کام کا کوئی اسباب ہے) چیزوں کو بیچنا شروع کیا اور قرض تھوڑا ادا کیا، بعد ازاں کچھ دن کے بھتیجے کو خبر ملی کہ بھائی نے اپنے اوپر ذمہ ادائے کاری میت کا لے لیا ہے کہ اس میت کے سر سے بار اتر جائے۔ تب اس نے بیچنا موقوف کیا، اس فعل سے اس بھتیجا کے لوگ اس سے رنج ہیں ۔ 1۔ تو کیا ایسی حالت میں وہ بھتیجا الله تعالیٰ کے نزدیک قیامت میں میت کی چیزوں کے ضائع کرنے کے جرم میں عذاب میں گرفتار ہوگا اور پرسش ہوگی؟ آیا اس کو ایسا کرنے سے ثواب ملے گا یا گناہ ہوگا؟ 2۔ کیا بوجہ چیزوں کے بیچنے کے وہ خیانت کا مجرم ہوگا؟ 3۔ کیا اس نے خلاف شرع کیا ہے؟ اگر اس نے صرف باجازت ماں اور بی بی کے بیچا ہے، کیا وہ گنہگار ہوگا؟ اگر اس نے بغیر اجازت کسی وارث کے چیزوں کو بیچ ڈالا ہے یا مستحق ثواب؟ 4۔ جو چیزیں بکی ہیں ، ان کو بھتیجا بیچنے والا واپس شرعاً خریدار سے لے سکتا ہے؟ اگر کوئی وارث واپس لینے کو کہے، کیا وہ گنہگار ہوگا یا باعث رنجش الله تعالیٰ کے ہوگا، اگر وہ چیزیں واپس خریدار سے لے لے؟ 5۔ کیا بیچنا چیزوں کا شرعاً بے شرمی ہے؟ 6۔ کیا رنج ہونا چچاؤں کا اس پر جا ہے یا بے جا شرعاً؟ کیا یہ رنجش باعث رنجش الله تعالیٰ کا بھی بیچنے سے ہوگا؟ کیا گنہگار ہوگا بھتیجا اس کے لیے؟ 7۔ کیا میت کی چیز کو بیچ کر اس کی طرف سے کارِ خیر میں دینا افضل ہے؟ خاص کر قرض اس کے ذمہ ہو یا تقسیم ہونا وارثوں میں بہتر ہے؟ 8۔ ماں مر گئی ہے تو کیا اس کے لڑکے کو اس قدر اختیار و حق شرعاً حاصل ہے کہ اس کی چیز کو اپنی نانی سے بزور لے کر بیچ کر اپنی ماں کی طرف سے قرض جو باقی رہ گیا ہے، ادا کر دے اور کارِ خیر میں لگا دے؟ جواب: قانونِ شرع یہ ہے کہ ترکہ میت سے بعد تجہیز و تکفین کے جو کچھ بچ رہے، اگر میت مدیون ہو تو اس میں سے اولاً اس کا دین ادا کیا جائے۔ ادائے دین کے بعد جو کچھ بچ رہے، اگر میت نے کچھ وصیت کی ہو تو اس بچے ہوئے کی ایک تہائی میں سے اس کے وصیت میں لگایا جائے، اس کے بعد جو کچھ بچ رہے، وہ حسبِ قانونِ شرع شریف ورثہ میں تقسیم کیا جائے، اس میں سے قبل تقسیم کے بلا رضا مندی کل ورثہ کے اور کسی کام میں صَرف کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں جو بھتیجے نے (جس کے اختیار میں کل ترکہ ہے) اگر قبل تقسیم ترکہ میان ورثہ اس ترکہ میں سے بعض چیزیں بیچ کر دین میت ادا کرنا شروع کیا تو اس پر مواخذہ اخروی کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس نے یہ کوئی خلافِ شرع کام نہیں کیا، بلکہ اگر اس نے نیک نیتی سے یہ کام کیا ہے تو امید ہے کہ اس کو اجر ملے گا۔ اگر ورثہ میت خود دین کے ادا کرنے کو تیار ہوں اور فروخت شدہ چیزیں واپس کر لینا چاہتے ہوں اور خریداران بخوشی واپس کر دیں تو اس میں کچھ گناہ نہیں ہے۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)