کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 742
مراسلے کا جواب اگر آپ نے تین دن کے اندر نہ دیا تو آپ کی خاموشی کو میں جن معنوں میں محمول کروں گا، مجاز ہوں گا۔‘‘ کیا مکتوب الیہم کا سکوت بعد انقضائِ میعاد معینہ یا تقریباً گیارہ ماہ زائد عمرو کے انکارِ عمد (آیت شریفہ ورثہ) مفہوم ہو کر وہ کاتب کے ورثہ سے محروم ہوسکتے ہیں ، جس حال میں کہ وہ بے اولاد مر جائے؟ 2۔ حدیث شریف میں آیا ہے: (( لا یرث الکافر المؤمن )) [1] [کافر مومن کا وارث نہیں ہوگا] کیا اس سے ’’لا یرث المشرک المؤمن‘‘ [مشرک مومن کا وارث نہ ہوگا] استنباط ہوسکتا ہے، جس حال میں کہ ہر دونوں کافر و مشرک کا انجام خلود فی النار ہے؟ 3۔ کیا کوئی فرد اہل السنۃ والجماعت اپنے ورثا میں سے اہل البدعۃ کو بحکم آیتِ شریفہ﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ [اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو] محروم الارث کر سکتا ہے؟ 4۔ کیا حدیث: (( الدال علی الخیر کفاعلہ )) [2] [بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والا بھلائی کرنے والے کی طرح ہے] کا قضیہ سالبہ ’’الدال علی غیر الخیر (شر) کفاعلہ‘‘ درست ہو کر اس سے مبتدعہ ورثہ کا محروم الارث ہونا تخریج ہوسکتا ہے؟ 5۔ اگر ورثا بنیت فریب دہی اپنے مورث کے ظاہری طور پر اپنے مبتدعانہ اعمال کی اصلاح کر چھوڑیں ، مگر عقائد بدستور ویسے ہی ہوں تو کیا وہ مورث بخیال حفظِ ما تقدم یا علی طریق الاحتیاط ان کو مطلقاً محروم الارث کرنے کی وصیت کرنے پر معذور ہوسکتا ہے؟ 6۔ کیا ایک موصی بے اولاد وصیت مشروط بدیں مضمون کر سکتا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں گا، خود مالک و قابض رہوں گا اور بعد میری موت کے فلاں و فلاں مالک و قابض متصور ہوں اور کہ اس وصیت کا عمل در آمد بشرط نہ پیدا ہونے میری اولاد کے ہوگا اور بروقت پیدا ہونے میری اولاد کے یہ وصیت کالعدم سمجھی جائے یا موصی لہم میں کوئی نقص پا کر اور ان کی جگہ مقرر کر سکتا ہے؟ راقم الحروف: خاکسار سعد الله خان (۵؍ صفر ۱۳۳۵ھ) پٹہ نقل نویس انگریزی محکمہ سیشن جج متصل کاں پنجاب۔ ملتان جواب:1۔ مکتوب الیہم صورت مصرحہ سوال میں کاتب کے ترکہ سے محروم نہیں ہوسکتے، جب تک کہ وہ اپنے آپ کو دینِ حق (اسلام) سے انکار کر کے دوسرے کسی دین (یہودیت، نصرانیت، مجوسیت وغیرہ) میں داخل نہ کریں ۔ و الله تعالیٰ أعلم۔ 2۔ حدیث شریف مذکور میں کافر سے ایسا شخص مراد ہے، جو اسلام سے منکر ہے اور کسی غیر دین میں داخل ہے۔ خلود فی النار احکامِ آخرت سے ہے اور حدیث احکامِ دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۰۳۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۱۴) [2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۷۰)