کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 738
اس اثنا میں زید نے اپنے کاروبار کا مالک بکر کو بنا دیا اور خانہ داری و نیز بیرونی کاروبار از قسم تجارت وغیرہ بکر (بڑا لڑکا) سر انجام دیتا رہا۔ اگرچہ بقیہ اور بھائی بجز عمرو کے و نیز زید کاروبار میں اعانت کرتے رہے اور کاروبار میں بہت ترقی ہوئی، مگر بکر کو اس حیثیت سے کہ باپ زید نے کارکن قرار دے دیا تھا۔ اب جبکہ باپ قضا کر گیا، جائداد موجودہ منقولہ و غیر منقولہ بکر کو کچھ حصے زائد بہ نسبت اور بھائیوں کے پہنچے گا؟ اور عمرو جو الگ رہا، اس جائداد پیدا کردہ باپ بھائیوں بکر وغیرہ سے محروم قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو کس قدر اس کا حصہ ہوسکتا ہے؟ اور اب بعد وفات زید بکر کا یہ کہنا کہ باپ کے پاس کوئی اثاثہ یا مال نہیں تھا، یہ کل پیدا کردہ ہم تین بھائی: بکر، خالد، ولید کی ہے، شرعاً کہاں تک قابل تسلیم ہے اور عمرو پر بکر کے قول کا ازروئے شرع کیا اثر پہنچ سکتا ہے؟ حاجی محمد یعقوب و محمد ثناء الله مؤناتھ بھنجن، ضلع اعظم گڑھ جواب: اگر جائداد مذکورہ بالا اصل میں زید کی تھی اور زید اور اس کے تینوں بیٹوں نے مل کر اس جائداد کو بڑھایا تو اس صورت میں یہ کل جائداد زید کی ہے، اس لیے کہ جو کچھ اصل جائداد پر ترقی ہوئی ہے، وہ سب نمائِ ملک زید ہے اور جب اس صورت میں یہ کل جائداد زید کی ہے تو زید کے قضا کر جانے کے بعد اس جائداد میں سے زید کے چاروں بیٹوں کو جن میں عمرو بھی ہے، برابر حصہ ملے گا، نہ کسی کو زیادہ نہ کسی کو کم اور اگر جائداد مذکورہ اصل میں زید کی نہ تھی، بلکہ کل جائداد پیدا کردہ تینوں بھائیوں (بکر، خالد، ولید) کی ہے تو اس صورت میں اس جائداد میں سے عمرو کو کچھ نہیں ملے گا۔ باقی رہا بکر کا یہ قول کہ ’’باپ کے پاس کوئی اثاثہ یا مال نہیں تھا، یہ کل جائداد پیدا کردہ ہم تینوں بھائیوں کی ہے۔‘‘ یہ قول بکر کا ایک دعویٰ ہے تو اگر عمرو بکر کے اس دعویٰ کو تسلیم کرتا ہو یا در صورت انکار کرنے کے بکر اپنے اس دعوے کو حاکم یا ثالث کے روبرو ثابت کر دے یا بکر عمرو کو اس دعوے کے انکار پر حاکم یا ثالث کے روبرو حلف دے اور عمرو حلف لینے سے بھی انکار کر دے تو ان تینوں صورتوں میں بکر کے قول مذکور کا اثر عمرو پر یہ ہوگا کہ عمرو جائداد مذکور سے محروم ہوجائے گا اور اگر عمرو حلف لے لے تو اس صورت میں حسبِ مضمون حلف عمرو بھی جائداد مذکور میں حصہ دار ہوجائے گا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۷؍ ذیقعدہ ۱۳۳۰ھ) سوال: شیخ مظہر علی کے چار بیٹے: بادل، اعظم، بندھو، حافظ رمضان علی ہیں ۔ مظہر علی نے قضا کیا، ان چاروں بیٹوں میں سے ایک (حافظ رمضان علی) نے اپنے باپ مظہر علی کے وقت میں خاص کما کر کچھ روپیہ الگ جمع کیا اور اپنے باپ کو باوجود ضرورتوں کے نہ دیا۔ اب اس روپے میں دوسرے بھائی لوگ دعویدار ہیں کہ اس روپیہ کو ملا کر مظہر علی متوفی کا ترکہ قرار دیں اور باخودہا تقسیم کریں ۔ ازروئے شرع شریف اس خاص روپے میں رمضان علی کے دوسرے بھائی پائیں گے یا نہیں ؟ جواب: مورث جس مال کا مالک ہوتا ہے، اسی میں وارثوں کا حق اور حصہ ہوتا ہے، پس جب حافظ رمضان علی نے اپنا حاصل کردہ روپے اپنے باپ مظہر علی