کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 736
کہ میں ان پر اس مالِ فے میں سے ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں ] اس میں تصریح ہے کہ حکیم رضی اللہ عنہ نے اپنا حق مال میں چھوڑ دیا اور نہ لیا جو دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو پہنچایا گیا۔ روی أبو داود عن أم سلمۃ قالت: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( إنما أنا بشر، و إنکم تختصمون إلي، ولعل بعضکم أن یکون ألحن بحجتہ من بعض فأقضي لہ علی نحو مما أسمع منہ، فمن قضیت لہ من حق أخیہ شیئا فلا یأخذ منہ شیئا، فإنما أقطع لہ قطعۃ من النار )) [1] [امام ابو داود رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک بشر ہوں ، تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی حجت پیش کرنے میں زیادہ چرب زبان ہو اور پھر میں اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کر دوں ، تو جس کسی کے لیے میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس سے کچھ نہ لے۔ میں تو اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ] وفي أخریٰ لہْ عنھا قالت: أتی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم رجلان یختصمان في مواریث لھما، لم تکن لھما بینۃ إلا دعواھما۔ فقال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : فذکر مثلہ فبکیٰ الرجلان، وقال کل واحد منھما: حقي لک، فقال لھما النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : أما إذا فعلتما ما فعلتما فاقتسما وتوخیا الحق، ثم استھما ثم تحالا، وفي أخری لہ عنھا قال: یختصمان في مواریث وأشیاء قد درست‘‘[2]اھ [امام ابو داود رحمہ اللہ کی ایک دوسری روایت میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہی بیان کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے جن کا میراث کے معاملے میں جھگڑا تھا اور ان کے پاس سوائے اپنے اپنے دعوے کے اور کوئی گواہ نہ تھا، تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مذکورہ بالا حدیث کے مثل بیان کیا۔ چنانچہ وہ دونوں رونے لگے اور ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا: میرا حق تیرے لیے ہے۔ پھر نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: جب تم ایسا کرتے ہو تو آپس میں تقسیم کر لو اور حق کا قصد کرو، پھر (حصے کی تعیین کے لیے) آپس میں قرعہ ڈال لو، پھر ممکن زیادتی ایک دوسرے سے معاف کرا لو۔ ابو داود ہی کی ایک دوسری روایت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان دو آدمیوں کا وراثت میں جھگڑا تھا اور بھی چند دوسری چیزیں تھیں ، جن کے نشانات مٹ گئے تھے] ان روایات سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ معاف کر دینا اپنے حقوق کا خاص عین اور مواریث میں بہر کیف جائز ہے، جیسا کہ حضرت نے مخاصمین فی المیراث کو فرمایا کہ ’’ثم تحالا‘‘ یعنی ایک دوسرے کو معاف کر دو۔
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۸۳) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۸۴)