کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 726
تکلیف دینا ہے، جس کی شارع علیہ السلام نے اجازت نہیں دی، بلکہ اس سے منع کر رکھا ہے] آیت:﴿وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ بھی اس کی موید ہے، نیز وہ آثار جن کو مفسرین نے اس آیت کے تحت نقل کیا ہے۔ درایہ تخریج احادیثِ ہدایہ میں ہے: ’’وذکر ابن أبي شیبۃ عن ابن عباس قال: خصاء البھائم مثلۃ، ثم تلا:﴿وَلَآمُرُنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرَنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ وأخرجہ عبد الرزاق عن مجاھد نحوہ، وعن شھر بن حوشب قال: الخصاء مثلۃ‘‘[1]انتھی [ابن ابی شیبہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: جانوروں کو خصی کرنا مثلہ ہے، پھر انھوں نے اس فرمانِ باری تعالیٰ کی تلاوت کی:﴿وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ عبد الرزاق نے مجاہد سے بھی اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ نیز شہر بن حوشب سے بھی یوں روایت کی ہے کہ خصی کرنا مثلہ ہے] گو علماے حنفیہ و شافعیہ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، اگر یہ حدیث ان پر حجت ہے (تو) جو صاحب اس کے جواز کے (قائل) ہوں تو ان پر اس حدیث کا جواب معقول دینا واجب ہے۔ در صورت معقول جواب ہم بھی اپنے اس فتوے سے رجوع کر جائیں گے۔ (ہم کو) امرِ حق کے قبول کرنے میں کچھ عار نہ ہوگا۔ در صورت رجوع بھی اس قدر ہم ضرور کہیں گے کہ احتیاط قولِ حرمت میں ہے: ’’إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام‘‘ [جب حلال و حرام مجتمع ہوجائیں تو حرام ہونا غالب ہوتا ہے] اصول کا مسئلہ ہے۔ و اللّٰه أعلم وعلمہ أحکم وأنا الفقیر الراجي إلی رحمۃ اللّٰه العلي: أبو المکارم محمد علي ۔وقاہ اللّٰه کل دین وحلاہ بکل زین۔ المؤي الأعظم گڈھی۔ ابو المکارم محمد علی (۱۳۰۵) الجواب صحیح علی الراجح عندي، و لما ذکرہ المجیب دلائل أخری سواہ۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه مسروقہ مال مالک کی وفات کے بعد کس کے سپرد کیا جائے؟ سوال: بکر نے اپنی ممانی ہندہ کا طلائی زیور چرا لیا اور خرچ کر ڈالا، جس کی قیمت مبلغ ۸۰؍ روپیہ تھی، بعد ازاں جب بکر کو خوفِ خدا غالب ہوا، تب اس نے ادا کرنا چاہا، لیکن کوئی صورت اس کے یک مشت یا تھوڑا تھوڑا ادا کرنے کی نہ تھی اور اسی وجہ سے بکر نے ہندہ سے اس امر کو پوشیدہ رکھا اور ہندہ کو بکر کی جانب کسی قسم کا خیال دزدی [چوری] کا نہ ہوا۔ بعدہ ہندہ نے انتقال کیا۔ بعد انتقال کے بکر ہندہ کی طرف سے جس قدر قیمت مال مسروقہ کی تھی، مثل تیاری مسجد، مدرسہ و مساکین وغیرہ میں خرچ کرتا ہے اور اس کی نیت یہ ہے کہ کل روپیہ جس قدر کہ اس نے چرایا تھا، اسی طرح خیرات کر دی، تو اب خدا کا مواخذہ اس پر ہوگا یا نہیں اور ہندہ مال کے پانے کی مستحق قیامت میں ہوگی یا نہیں ؟
[1] الدرایۃ لابن حجر (۲/ ۲۳۰)