کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 721
جواب: شطرنج بلا شرط کے جواز یا حرمت پر کوئی قطعی دلیل نہیں قائم ہے اور اسی واسطے علما کی رائے اس مسئلے میں مختلف ہے۔ شوافع اور جماع تابعین اس کی کراہت کے قائل ہیں ۔ امام مالک اور امام احمد حرام کہتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مختلف اقوال منقول ہیں ۔ ابن عباس، ابن عمر، ابو موسیٰ اشعری، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے کراہت مروی ہے۔ ابوہریرہ و ابن عباس رضی اللہ عنہم سے دوسری روایت میں اباحت۔ تابعین میں سے ابن سیرین، ہشام بن عروہ، سعید بن المسیب اور ابنِ جبیر رحمہم اللہ اباحت کے قائل ہیں ۔ ایسی حدیثیں بھی روایت کی گئی ہیں ، جو اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں ، مگر ابنِ کثیر نے کہا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں اور چونکہ اس کی ایجاد بھی زمانہ صحابہ میں بیان کی گئی ہے، اس سے عدمِ صحت کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو مَیْسَر میں شمار کیا ہے اور میسر کی حرمت پر نصِ قطعی دال ہے۔ (نیل الأوطار: ۷/ ۳۰۸ تا ۳۰۱) بہر کیف شطرنج کی حرمت باسمہ ثابت ہو یا نہ ہو، مگر اس میں کچھ شک خلاف نہیں کہ یہ لَہو میں داخل ہے اور لَہو خود منہی عنہ ہے۔ پس بہتر ہے کہ آدمی حتی الوسع اس سے احتراز کرے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: علي أصغر، عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه عبادتِ بدنی کا معاوضہ: سوال: عبادتِ بدنی کا معاوضہ مال سے یا غلہ سے بھی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ جواب: صوم جو ایک عبادت بدنی ہے، اس کا معاوضہ تو ایک خاص صورت میں طعام سے آیا ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ﴾ (البقرۃ: ۱۸۴) [اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے]اس کے سوا اور کسی صورت میں عبادت بدنی کا معاوضہ کسی صحیح حدیث مرفوع میں مجھے یاد نہیں آتا۔ حقہ پینا: سوال: حقہ پینا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں جائز تو کس دلیل سے؟ جواب: اس کی حرمت پر کوئی صریح دلیل نہیں ہے، لیکن بوجہ اختلاف اس سے اجتناب و تنزہ بہتر ہے اور نہ پینے والے پینے والے سے اچھے ہیں ۔ شوہر کا عملِ ولادت سرانجام دینا: سوال: عورت حاملہ ہے، جس وقت اس کو لڑکا پیدا ہونے کا درد شروع ہو، اس وقت دائی کے بجائے اپنے ہاتھ سے عملِ ولادت سر انجام دینا چاہیے یا نہیں ؟ جواب: ولادت کے وقت کا کام جس عورت سے انجام پا سکے کر سکتی ہے، دائی کی شرط نہیں اور شوہر بھی اس کام کو کر سکتا ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔