کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 718
جواب: طریقہ وعظ مندرجہ سوال میری دانست میں جائز ہے، اس طریقے کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ مجھے معلوم نہیں ہوتی اور جو شخص طریقہ مذکورہ کو گمراہوں کا طریقہ بتلائے یا اس طریقے سے وعظ کہنے والوں کو بدعتی، فاسق سمجھے اور مجلس مولود مروجہ محدثہ کے ارتکاب کا الزام لگائے، اس کا بارِ ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ و الله تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۹؍ ذیقعدۃ ۱۳۲۶ھ) دوا کی حلت اور قسم کا کفارہ: سوال: ایک شخص کو مرضِ طحال ہے۔ طحال کے اوپر ایک دوا ضماد کیا، اس کے ضماد کرنے سے اس کو بہت سوزش و جلن پیدا ہوئی، اُس حالت میں نہایت بے قرار ہوا اور اُس وقت اس نے کہا کہ اے پروردگار! اگر جلن و سوزش ہماری تو رفع کر دے تو ہم آج سے کسی قسم کا علاج کھانے یا لگانے کا نہیں کریں گے۔ بعد ایک گھنٹہ کے سوزش و جلن اُس شخص کی جاتی رہی، مگر صحت نہیں ہوئی اور طحال موجود ہے، اس کے والدین و اپنے یگانے و محلے کے لوگ واسطے کھانے دوا کے کوشاں ہیں ، مگر وہ شخص بوجہ کرنے وعدہ کے دوا کھانے سے انکار کرتا ہے، اس لیے ملتمس ہے کہ شرع اجازت دوا کھانے یا لگانے کی دیتی ہے یا نہیں ؟ جواب: صورت مسؤلہ میں وہ شخص دوا کھائے اور لگائے اور جو صورت جائز علاج کی ہو، عمل میں لائے، شرعاً اُس کو سب جائز ہے، لیکن اگر ایسا کرے تو اس کو کفارہ دینا ہوگا اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ قسم کا کفارہ قرآن مجید پارہ ہفتم رکوع ۲ میں مذکور ہے، وہاں دیکھنا چاہیے۔[1] صحیح مسلم (۱/ ۴۵) میں ہے: عن عقبۃ بن عامر أنہ قال: نذرت أختي أن تمشي إلی بیت اللّٰه حافیۃ فأمرتني أن أستفتي لھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فاستفتیتہ فقال: (( لتمش ولترکب )) [2] [عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بہن نے ننگے پاؤں بیت الله کی طرف جانے (اور حج کرنے) کی نذر مان لی۔ پھر مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلے کو دریافت کروں ، سو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ چلے اور سواری پر بیٹھے]
[1] ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ [المائدۃ:۸۹] ’’اﷲ تم سے تمھاری قسموں میں لغو پر مواخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مواخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، درمیانے درجے کا، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا انھیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا، پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اﷲ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم شکر کرو‘‘ [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۴۴)