کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 712
یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا حق انھیں دو اور اپنا حق الله تعالیٰ سے طلب کرو] وعن وائل بن حجر قال: سأل سلمۃ بن یزید الجعفي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: یا نبي اللّٰه ! أرأیت إن قامت علینا أمراء یسألونا حقھم، ویمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ قال: (( اسمعوا وأطیعوا، فإنما علیھم ما حملوا، وعلیکم ما حملتم)) [1] (رواہ مسلم) و اللّٰه أعلم بالصواب [وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سلمہ بن یزید الجعفی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو عرض کی: اے الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بتائیں اگر ہم پر ایسے امرا مقرر ہوجائیں ، جو اپنا حق ہم سے طلب کریں ، جب کہ ہمارے حق سے ہمیں محروم رکھیں ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو، جو ان کی ذمہ داری ہے، وہ اس کے مکلف ہیں اور جو تمھاری ذمے داری ہے تم اس کے ذمے دار و مکلف ہو] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) کسی مسلمان کی بد خواہی کرنا حرام ہے: سوال: زید اپنی دختر بالغہ کی نسبت شادی نکاح بکر کے فرزند سے بغرض ادائے فرض و تبعیت سنتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم مقرر کرتا تھا اور زید کی یہ نیت خالص تھی کہ ایامِ قلیل میں حسبِ شرع شریف اس بارِ عظیم سے سبک دوش ہو کر ماجور اتباعِ سنت ہو، لیکن عمرو جو باعتبار افعال دنیاوی ایک ثقہ آدمی شمار کیا جاتا ہے، بجوش نفسانیت و بزعم اس کے کہ شادی میری دختر کی بکر کے دوسرے فرزند سے ہوئی ہے، بلا کوئی عذر حسب و نسب و حجت جو مانع شادی مومنین ہو، ایسا مخل ہوا کہ بکر کو استقرار شادی میں کمال تامل ہوا، حتی کہ مشکوک خاطر ہو کر تارک نسبت دختر زید ہوگیا۔ مزید برآں کہ عمرو تو بذات خاص ہر طرح سے کوشاں ہی تھا، اپنے اعزہ و اقربا کو بکوشش بلیغ و چاپلوسی کثیر جیسے کہ فی زماننا مروج ہے، بغرض چھوٹ جانے نسبت دختر زید کے آمادہ کیا، حالانکہ زید و بکر کا حسب و نسب یکساں ہے، بلکہ حسب و نسب بکر کا باعتبار حسب و نسب زید کے قابل کلام و حرف ہے۔ عمرو کا منشائے دلی بوجہ عناد و بغض اسباب زمینداری کے ہر پہلو سے یہی تھا کہ ہرگز ہرگز زید کی دختر بالغہ کا نکاح بکر کے فرزند سے نہ ہو اور بہ نسبت عجلت شادی دختر بالغہ کی ہر مومن کو جیسی تاکید اکید شرعی ہے، اظہر من الشمس ہے، خلاف اس کے عمرو قاطع و مانع ہوا تو ایسی صورت میں عمرو کی حیثیت باعتبار فعل متذکرہ بالا کے مطابق قول خدا و رسول کیا قرار پائی اور موردِ الزام شرعی ہوا یا نہیں ؟ اگر ہوا تو کس الزام کا ملزم و کس جرم کا مجرم؟ جواب: عمرو بوجہ اس فعل کے بدخواہ اپنے بھائی مسلمان کا ہوا اور جو شخص بد خواہی بھائی مسلمان کی کرے، اس کی نسبت امام مسلم و ترمذی و ابن ما جہ وغیرہم ائمہ حدیث نے ابوہریرہ و عبد الله بن عمرو و عبد الله بن مسعود و عبد الله بن عباس و انس بن مالک و ابو موسیٰ اشعری و براء بن عازب و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے کہ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۴۶)