کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 711
قول اللّٰه تعالیٰ:﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ [المطففین: ۱۴] [1] وقال الترمذي: حسن صحیح۔ (إلی قولہ) وقال الحسن البصري: ھو الذنب علی الذنب حتی یعمی القلب فیموت، وکذا قال مجاھد وابن جبیر و قتادۃ و ابن زید وغیرہم‘‘ و اللّٰه تعالیٰ أعلم [ابن جریر، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے کئی واسطوں کے ساتھ محمد بن عجلان سے روایت کی ہے، وہ قعقاع بن حکیم سے روایت کرتے ہیں ، وہ ابو صالح سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے، اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھتا چلا جائے تو وہ نکتے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا الله تعالیٰ نے ذکر کیا ہے:﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ ’’ہرگز نہیں ، بلکہ زنگ بن کر چھا گیا ہے ان کے دلوں پر، جو وہ کماتے تھے‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے ۔۔۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے: اس کا مطلب گناہ پر گناہ کرتے چلے جانا یہاں تک کہ دل اندھا ہوجائے اور وہ مر جائے۔ مجاہد، ابن جبیر، قتادہ اور ابن زید وغیرہ کا یہی موقف ہے] (کتبہ: ۳۰؍ رمضان المبارک ۱۳۳۱ھ) حق دار کا حق ادا کرنا ضروری ہے: سوال: اگر باپ اپنے لڑکے کو بچپن سے ستاتا ہو اور اس لڑکے کو کوئی اور رشتہ دار اس کا پالے اور جب وہ لڑکا بالغ ہو تو اس کو باپ کے پاس جانا چاہیے یا نہیں یا حق ادا کرنا چاہیے یا نہیں اور اگر لڑکے کی خواہش ہو کہ حق ادا کرے، مگر باپ کے پاس جانے یا رہنے سے ڈرتا ہو اور نہ کوئی ذریعہ ہے کہ اپنے باپ کو کچھ دے تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر وہ لڑکا اپنے باپ کے پاس جا سکتا ہے اور باپ کا حق ادا کر سکتا ہے تو جائے اور باپ کا حق ادا کرے (خواہ خدمت مالی ہو یا بدنی یا جو اس سے ممکن ہو ادا کرے) اور باپ اگر اس کا حق ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال باپ پر ہے، یہ لڑکا بری الذمہ ہے اور لڑکا اپنا حق الله سے چاہے۔ مشکوۃ شریف (ص: ۳۱۱ و ۳۱۲ مطبع احمدی دہلی) میں ہے: عن عبد اللّٰه بن مسعود رضی اللّٰه عنہ قال: قال لنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( إنکم سترون بعدي أثرۃ و أمورا تنکرونھا )) قالوا: فما تأمرنا یا رسول اللّٰه ؟ قال: أدوا إلیھم حقھم، وسلوا اللّٰه حقکم )) [2] (متفق علیہ) [سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ’’تم عنقریب میرے بعد ترجیح دینے کو اور ایسے امور کو دیکھو گے جنھیں تم ناپسند کرتے ہوگے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۳۳۴) سنن النسائي الکبریٰ (۶/ ۵۰۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۲۴۴) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۴۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۴۳)