کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 707
[اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے]
جو قول کسی کا خلافِ کتاب و سنت ملے، اس کو چھوڑ دینا اور مجتہدینِ دین کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے اور ان کا جو قول کتاب و سنت کے خلاف ملے، اس کو ان کی اجتہادی غلطی پر محمول کرنا چاہیے، جس میں وہ معذور ہیں ، بلکہ ماجور اور اپنا عمل کتاب و سنت کے مطابق رکھنا چاہیے۔ سلف صالحین و ائمہ دین کا یہی طریقہ مرضیہ چلا آتا ہے۔
6۔ آیتِ کریمہ﴿وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [الأنعام: ۶۸] [اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ] مع آیت ما بعد میں اس بات کا بیان ہے کہ جو لوگ اپنی مجلسوں میں جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن شریف کی ہجو اور بُرائی بیان کریں یا احکامِ شریعت کے ساتھ ٹھٹھا کریں اور معصیت کے کام میں مشغول ہوں ، اس وقت مسلمانوں کو ان کی مجلسوں میں بیٹھنا منع ہے اور اگر ایسے وقت میں بھی ان کے پاس بیٹھے رہ جائیں گے اور نہ اُٹھیں گے تو انھیں کے مثل ہو جائیں گے اور وہی مواخذہ و محاسبہ الله کا جو اُن سے ہوگا، ان سے بھی ہوگا اور اگر بھول کر بیٹھے رہ جائیں تو ان کو جس وقت یہ حکم یاد آجائے، اسی وقت وہاں سے اٹھ کھڑے ہوں اور ذرا بھی اس میں دیر نہ کریں ۔
7۔ہاں جو لوگ نصیحت کرنے کے لیے بیٹھے رہ جائیں ، اس امید پر کہ شاید ان کی نصیحت سے ان کو کچھ فائدہ ہوجائے اور نصیحت سن کر گناہ سے باز آجائیں تو ان کو اجازت ہے۔ کفارِ مکہ اس قسم کی ناشائستہ حرکات اپنی مجلسوں میں کر کے اپنا منہ کالا کیا کرتے، الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان آیات میں مذکورہ بالا ہدایتیں فرمائیں ۔ یہی ان آیات کا شانِ نزول ہے، لیکن حکم ان آیات کا ہر ملک اور ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔
8۔ جو شخص کہتا ہے کہ مرتکبانِ کبیرہ جو بدون توبہ مر گئے ہیں ، ان پر عذاب ہونا ضرور ہے، اس کا قول باطل و غلط اور عقیدہ معتزلہ و خوارج کے موافق ہے اور جو شخص کہتا ہے کہ وہ لوگ الله کی مشیت میں ہیں ، چاہے ان کو عذاب کرے اور چاہے بدون عذاب بفضل و کرم اپنے یا بذریعہ شفاعتِ شافعان انھیں بخش دے، اس کا قول حق و صواب اور عقیدہ اہل سنت و جماعت کے موافق ہے اور﴿مَا دُوْنَ ذٰلِکَ﴾ کے تحت میں سواے شرک کے سب گناہ داخل ہیں ، کبیرہ ہوں یا صغیرہ۔ شرح مواقف (ص: ۷۹۰ مطبوعہ نولکشور) میں ہے:
’’أوجب جمیع المعتزلۃ والخوارج عقاب صاحب الکبیرۃ إذا مات بلا توبۃ، ولم یجوزوا أن یعفو اللّٰه عنہ‘‘ انتھی