کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 706
وعن أبي ذر رضی اللّٰه عنہ أنہ سمع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( ومن دعا رجلا بالکفر أو قال: عدو اللّٰه ، ولیس کذلک إلا حار علیہ )) [1] و اللّٰه أعلم بالصواب۔ (رواہ البخاري و مسلم، في حدیث ’’حار‘‘ بالحاء المھملۃ والراء أي رجع۔ اھ) [سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے کسی شخص کو کافر کہہ کر پکارا یا کہا: الله کے دشمن! جب کہ وہ ایسا نہ ہو تو وہ بات اس (کہنے والے) پر لوٹ آتی ہے] 2۔ اس صورت میں ضرور تفریق جماعت کا الزام اس شخص پر آیا اور بے شبہہ﴿وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ﴾ کا خلاف اس سے ہوا۔ 3۔ ایسی حالت میں یہ لوگ شرعاً مذموم ہیں ، نہ کہ ممدوح، جو لوگ دنیا کے بندے ہیں کہ جس سے ان کو دنیا ملے اس سے خوش رہیں اور جس سے نہ ملے ناخوش، ایسے لوگوں کے حق میں حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت بد دعا فرمائی ہے۔ کتاب ’’الترغیب والترہیب‘‘ (ص: ۲۴۸) للحافظ المنذري رحمہ اللہ میں ہے: عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( تعس عبد الدینار و عبد الدرھم وعبد الخمیصۃ )) زاد في روایۃ: (( و عبد القطیفۃ إن أعطي رضي، وإن لم یعط سخط، تعس وانتکس وإذا شیک فلا انتقش )) [2] الحدیث (رواہ البخاري) [سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں : دینار، درہم اور پوشاک کا (پرستار) بندہ ہلاک ہوا، اگر اسے دیا جائے تو خوب اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے، وہ ہلاک ہوا اور ذلیل ہوا، جب اسے کانٹ چبھے تو نکالا نہ جائے۔۔۔ الحدیث] 4۔ صلحاے امت میں سے کسی کو، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہوں یا اور کوئی، برا کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں عموماً امواتِ مسلمین صالحین کے برا کہنے سے نہی آئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز کے آخر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لا تسبوا الأموات، فإنھم قد أفضوا إلی ما قدموا)) [3] [فوت شدگان کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ وہ تو اپنے کیے کے پاس جا چکے ہیں ] سورۂ حشر میں اپنے اور ان کے لیے یوں دعا کرنے کا حکم کیا ہے: ﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَؤفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [الحشر: ۱۰]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۰۴۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۱) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۳۰) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۲۹)