کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 701
رسل عظام ۔علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام۔ کو الله تعالیٰ کی اطاعت میں اسی اتباع کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سورۃ النساء کے نویں رکوع میں ارشادِ الٰہی ہے:﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ [النساء: ۶۴] ’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس لیے کہ الله کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے۔‘‘رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت عین اطاعتِ خدا ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء کے گیارھویں رکوع میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ [النساء: ۸۰] ’’جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے الله کی فرماں برداری کی۔‘‘ پس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت عین خدا تعالیٰ کی مخالفت ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے بر خلاف کسی کا اتباع کرنا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے برخلاف کسی کا اتباع جائز نہیں ہے تو کسی مسئلے میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے برخلاف کسی کے قول و فعل سے استدلال کرنا کیسے جائز ہوگا، کیونکہ یہ تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے برخلاف دوسروں کی اتباع کرنا ہے۔ سلام کے وقت پشت کو جھکانا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہے۔ چنانچہ سنن ترمذی (ص: ۴۴۷ مطبوعہ فخر المطابع دہلی ۱۲۶۹ھ) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے کمر کو جھکائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ۔‘‘ رہا سلام کے وقت ہاتھ کو سینے یا پیشانی تک اٹھانا تو اس موضوع پر کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ہے۔ البتہ اتنا ثبوت ضرور ملتا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ سلام کیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن (ص: ۴۴۳) میں اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بیان کیا ہے: ’’ بلاشبہ ایک دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سے گزرے تو وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو ہلا کر اشارے کرتے ہوئے سلام کیا۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’الأدب المفرد‘‘ (ص: ۱۴۵، ۱۵۱) میں اسماء رضی اللہ عنہا سے اس مفہوم کی روایت نقل کی ہے۔ ایسے ہی آداب و بندگی کو سلام پر ترجیح دینا، سلام کو معیوب خیال کرنا اور سلام کرنے والے کو متکبر سمجھنا خدا تعالیٰ کے قول اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے برخلاف ہے۔ الله تعالیٰ سورۃ النساء کے گیارھویں رکوع میں ارشاد فرماتے ہیں : ﴿ وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا﴾ [النساء: ۸۶] ’’اور جب تمھیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو یا جواب میں وہی کہہ دو۔‘‘