کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 696
قاموس میں ہے: ’’المصافحۃ الأخذ بالید کالتصافح‘‘[1] [مصافحہ کا معنی ہے ہاتھ پکرنا، جیسے تصافح لفظ ہے] اس میں شرعاً کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں کہ دونوں ہاتھ کی شرط ہے، پس جب لغت سے مصافحہ کے معنی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کے ثابت ہوئے، اس سے دونوں ہاتھ کی قید ثابت نہیں ہوئی اور شرعاً بھی اس میں ہر جانب سے دو ہاتھ کی شرط کا ثبوت نہیں تو ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا موافق سنت کے ہوگا اور ہر جانب سے دو ہاتھ کی شرط بے دلیل ہوگی۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) نو مسلموں کے ساتھ برتاؤ: سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے، ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نیز اس وقت کے موجودہ مسلمان ان نو مسلموں سے کیسا برتاؤ فرماتے تھے اور نو مسلموں کو کیا حکم ہوتا تھا؟ جواب: الله تعالیٰ نے تمام مسلمانوں میں (خواہ قدیم الاسلام ہوں یا نومسلم) یہی ایک رشتہ قائم فرما دیا ہے کہ ہر ایک دوسرے کے بھائی برادر ہیں ، اس کے سوا مسلمانوں میں اور کوئی دوسرا رشتہ قائم نہیں فرمایا ہے۔ سورۂ حجرات میں فرمایا ہے:﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ﴾ [الحجرات: ۱۰] یعنی تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی برادر ہیں ۔ ہاں فرق بتایا ہے تو صرف اس بات میں بتایا ہے کہ جس مسلمان میں جتنا تقویٰ زیادہ ہوگا، اتنا ہی وہ الله کے نزدیک عزت میں بڑا ہوگا۔ چنانچہ فرمایا:﴿اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾ [الحجرات: ۱۳] یعنی یہ بات بلاشک ہے کہ تم میں الله کے نزدیک زیادہ عزت والا وہی ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔ اور ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ مشکوۃ (ص: ۴۰۹) میں ہے: عن أبي ھریرۃ قال: سئل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أي الناس أکرم؟ قال: ((أکرمھم عند اللّٰه أتقاھم )) [2] (متفق علیہ) [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: لوگوں میں سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں الله کے ہاں زیادہ معزز شخص وہ ہے جو ان میں سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے] نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إن اللّٰه أوحی إلي أن تواضعوا حتی لا یفخر أحد علی أحد )) [3] (رواہ مسلم، مشکوۃ، ص: ۴۰۹) [ بلاشبہ الله تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو، حتی کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے] نیز مشکوۃ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إن اللّٰه أذھب عنکم عبیۃ الجاھلیۃ، وفخرھا بالآباء، إنما ھو مؤمن تقي أو فاجر
[1] القاموس المحیط (ص: ۲۲۹) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۴۱۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۷۸) [3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۶۵)