کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 688
[انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ و قیصر و نجاشی کے نام خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ وہ صرف سر بمہر خط ہی وصول کرتے ہیں ، تب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے حلقے کی انگوٹھی بنوائی، اس میں ’’محمد رسول اللّٰه ‘‘ نقش کیا گیا] صحیح بخاری (۱/ ۲۴ مصری) میں ہے: ’’عن ابن عباس أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بعث بکتابہ رجلا، وأمرہ أن یدفعہ إلی عظیم البحرین فدفعہ عظیم البحرین إلی کسری فلما قرأہ مزقہ‘‘[1] [سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خط دے کر روانہ کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ اسے سربراہ بحرین کے حوالے کر دے، چنانچہ سربراہ بحرین نے یہ خط کسریٰ کے حوالے کیا، جب اس نے پڑھا تو اس نے اسے چاق کر دیا] خلیفہ عبد الملک نے خیر القرون خصوصاً قرنِ صحابہ کرام میں اشرفیاں جاری کی تھیں ، ان پر قرآن مجید اور کلمہ طیبہ لکھا تھا اور خلیفہ مذکور کے اس فعل پر کسی صحابی یا تابعی کا انکار ثابت نہیں ۔ ’’تاریخ الخلفاء‘‘ (ص: ۱۲۸) میں ہے: ’’وقال یحییٰ بن بکیر: سمعت مالکا یقول: أول من ضرب الدنانیر عبد الملک، وکتب علیھا القرآن، وقال مصعب: کتب عبد الملک علی الدنانیر قل ھو اللّٰه أحد، وفي الوجہ الآخر: لا إلٰہ إلا اللّٰه ، وطوقہ بطوق فضۃ، وکتب فیہ: ضرب بمدینۃ کذا، وکتب خارج الطوق: محمد رسول اللّٰه ، أرسلہ بالھدی ودین الحق‘‘ [یحییٰ بن بکیر نے کہا ہے کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے عبدالملک رحمہ اللہ نے اشرفیاں جاری کی تھیں ، ان پر قرآن مجید لکھا تھا۔ مصعب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عبدالملک رحمہ اللہ نے اشرفیوں کی ایک جانب ’’قل ھو اللّٰه أحد‘‘ اور دوسری جانب ’’لا إلٰہ إلا اللّٰه ‘‘ لکھوایا تھا۔ اس کے گرد چاندی کا ایک حلقہ ہوتا تھا اور اس حلقے پر ٹکسال کے شہر کا نام اور حلقے سے خارج میں ’’محمد رسول اللّٰه أرسلہ بالھدیٰ و دین الحق‘‘ لکھا ہوتا تھا] ٹوپیوں اور اشرفیوں میں جو ایک بہت بڑا فرق ہے، قابلِ لحاظ ہے، وہ یہ کہ ٹوپیاں صرف سر ہی پر رکھی جاتی ہیں اور اشرفیوں میں یہ قید نہیں ہے، بلکہ جہاں چاہے رکھے اور خلیفہ مذکور نے صدور طوامیر میں ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مع تاریخ لکھنا جاری کیا تھا تو سلطانِ روم نے خلیفہ مذکور کو لکھ بھیجا تھا کہ اس فعل کو ترک کر دو، ورنہ ہم اپنی اشرفیوں پر بھی ایسی بات لکھیں گے، جو تم کو ناگوار ہوگی، مگر خلیفہ مذکور نے اس کو ترک نہ کیا، بلکہ بدستور جاری رکھا۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۴)