کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 676
’’الورع ترک الحلال خوفاً من الوقوع في الشبھات، والزھد ترک الشبھات خوفا من الحرام، وقد یقال: الزھد الإعراض عن الدنیا‘‘[1]والتفصیل في إحیاء العلوم [شبہے والی چیزوں میں ملوث ہونے کے ڈر سے حلال کو ترک کرنا ورع اور حرام میں واقع ہونے کے خوف سے شبہات کا چھوڑنا زہد کہلاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا سے اعراض و اجتناب کرنے کا نام زہد ہے۔ اس کی تفصیل ’’إحیاء العلوم‘‘ میں ہے] اس زمانے میں کسب سود کا اس کثرت سے درمیان مسلمانوں کے پھیل رہا ہے کہ جس (کی) انتہا نہیں الا بعض شخص، ورنہ ہر شخص کسی نہ کسی طرح سے مبتلا ہے۔ کیونکر نہ ہو خود رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (( لیأتین علیٰ الناس زمان، لا یبقیٰ أحد إلا أکل الربا، وإن لم یأکلہ أصابہ من بخارہ، ویروي من غبارہ )) [2] أخرجہ أبو داود وغیرہ۔ [لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا، جس میں کوئی شخص سود کھائے بغیر نہیں رہے گا، جو شخص سود نہیں کھائے گا، اسے بھی اس کا گرد و غبار تو پہنچ ہی جائے گا] ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں ’’من بخارہ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’والمراد من بخارہ أثرہ، وذلک بأن یکون مؤکلا أو شاھدا أو کاتبا أو ساعیا أو أکل من ضیافتہ أو ھدیتہ‘‘[3]ھکذا في اللمعات للشیخ عبد الحق محدث الدھلوي۔ [اس کے گرد و غبار سے مراد اس کا اثر ہے۔ وہ ایسے کہ وہ کھلانے والا یا گواہی دینے والا یا لکھنے والا یا کوشش کرنے والا یا اس کی ضیافت سے یا اس کے ہدیے سے کھانے والا ہوگا] جو فقہ کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ جب مال اس کا اکثر حلال کا ہو اور کم حرام کا ہو تو دعوت کھانا جائز ہے، اس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی، اس لیے کہ جب ہم سب مامور ہیں کہ مشتبہات سے اجتناب کریں تو خواہ مال اس کا حرام کا زیادہ ہو یا نہ ہو تو ہر طرح سے مشتبہ رہے گا۔ ہاں اس قدر البتہ ہے کہ جب مال حرام کا اکثر ہوگا تو زیادہ تر مشتبہ رہے گا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بدوں قید اس کی مشتبہات سے بچنے کا حکم فرمایا ہے۔ کہیں حدیث شریف میں اس کی تصریح نہیں آئی ہے کہ جب مال حرام کا زیادہ نہ ہو تو دعوت قبول کرنا جائز ہے۔ وإذ لیس فلیس۔ پس یہ قول مقابل ان نصوص کے متروک ہوا اور اگر مان بھی لیا جائے، تب بھی اجتناب اس دعوت سے افضل ہے اجابت سے اور اسی کا نام تقویٰ ہے، چنانچہ صراحتاً اس باب میں حدیث وارد ہے کہ خود رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
[1] إحیاء علوم الدین (۴/ ۲۱۶) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۳۳۱) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۴۵۵) اس کی سند میں انقطاع ہے۔ [3] مرقاۃ المفاتیح (۵/ ۱۹۲۲)