کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 675
[عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھالے سے شکار کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ دھار کی طرف سے لگا ہو تو کھا لو اور اگر موٹائی کی طرف سے لگا ہو تو مت کھاؤ، بلاشبہ وہ چوٹ زدہ ہوگا۔ میں نے عرض کی: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور الله کا نام لیتا ہوں تو پھر میں شکار پر اس کے ساتھ ایک اور کتا بھی دیکھتا ہوں ، جس پر میں نے الله کا نام نہیں لیا اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان دونوں میں سے کس نے شکار کو پکڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مت کھاؤ، کیونکہ تم نے اپنے کتے پر الله کا نام لیا ہے، دوسرے کتے پر الله کا نام نہیں لیا] امام ترمذی نے حسن بن علی سے روایت کیا ہے: عن الحسن بن علي قال: حفظت من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( دع ما یریبک إلیٰ ما لا یریبک )) [1] ھکذا في البخاري تعلیقاً۔ [حسن بن علی سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ یاد کیے: جو چیز تجھے شک میں ڈال دے، اسے چھوڑ دو اور شک سے پاک چیز اختیار کرو] امام نووی ریاض الصالحین میں فرماتے ہیں : ’’معناہ: اترک ما تشک فیہ، واعدل إلی ما لا تشک فیہ‘‘[2] انتھی [اس کا معنی یہ ہے کہ جس چیز میں تمھیں شک ہو، اس کو چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کر لو، جس میں تمھیں شک نہ ہو] نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ’’عن أنس قال مر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بتمر مسقوطۃ فقال: (( لو لا أن یکون صدقۃ لأکلتھا )) وقال ھمام عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أجد تمرۃ ساقطۃ علی فراشي )) [3]انتھی [انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر (مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ) یہ صدقے کی ہوگی تو میں اسے کھا لیتا۔ ہمام نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: میں اپنے بستر پر ایک کھجور گری ہوئی پاتا ہوں تو کھانے لگتا ہوں ، لیکن پھر یہ سوچ کر چھوڑ دیتا ہوں کہ کہیں وہ صدقہ نہ ہو] حاصل ان عباراتِ مذکورہ کا یہ ہے کہ دعوتِ مسؤلہ جائز نہیں ، اس لیے کہ مشتبہات سے بچنے کی کمال تاکید آئی ہے، جیسا کہ احادیثِ مذکورہ دلالت کرتی ہیں اس پر، پس مشتبہات سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے، اس واسطے کہ جب آدمی مشتبہات میں واقع ہوا، لامحالہ حرام میں واقع ہوا، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث دلالت کرتی ہے اور انھیں شبہات سے بچنے کا نام زہد و ورع ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے:
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۵۱۸) [2] ریاض الصالحین (ص: ۶۲) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۰۵۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۷۰)