کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 673
[ولادت، ختنے اور نو تعمیر گھر والی دعوت میں تمھیں اختیار ہے] نقل کر کے اس پر سکوت فرما دیا اور اس کی سند پر کوئی بحث نہیں کی، جس سے حدیث مذکور کا صحیح یا حسن ہونا ثابت ہوگیا، جب کہ خود حافظ رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری کے اوائل میں اس کی تصریح فرما دی ہے۔[1] اس حدیث سے دو امر ثابت ہوئے: 1۔ ایک یہ کہ دعوتِ ختنہ جائز ہے، کیونکہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اِعذار کی اجابت کا اختیار دیا اور اِعذار دعوتِ ختنہ کا نام ہے، تو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ ختنہ کی اجابت کا اختیار دیا۔ پس اس سے اس دعوت کا جواز ثابت ہوگیا، ورنہ اگر یہ دعوت ناجائز ہوتی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ناجائز کی اجابت کا اختیار ہرگز نہ دیتے۔ 2۔ دوسرے یہ کہ زمانہ رسالتِ مآب میں دعوتِ ختنہ کا دستور جاری تھا اور اس دعوت کا نام مثل دیگر دعوتوں کے ناموں کے اِعذار مشہور تھا، ورنہ اگر اس دعوت کا دستور جاری نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کس طرح فرماتے کہ اِعذار کی اجابت میں تم کو اختیار ہے اور جب اس مرفوع حدیث سے دعوتِ ختنہ کا جواز اور اس کا زمانہ رسالت میں دستور و رواج ثابت ہوا تو یہ دعوت بدعت کس طرح ہوسکتی ہے اور یہ قول کہ محدثین کی تبویب و فہمِ معانی و مطالبِ احادیث حجت ہے، صحیح نہیں ۔ فہمِ معانیِ احادیث درایت ہے، ثقہ کی روایت حجت ہے۔ مجرد اس کی درایت حجت نہیں ، کیونکہ یہی تو عین تقلید ہے، جو شریعت میں حجت نہیں ۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ محمد عبد اللّٰه (۱۳؍ ربیع الاول ۱۳۲۸ھ از لکھنؤ شاہی شفاخانہ وکٹوریا گنج) سودی اور حلال دونوں کاروبار کرنے والے کی دعوت قبول کرنا[2]: سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ دعوت قبول کرنا اس شخص کے یہاں ، جو مال سود کا بھی کسب کرتا ہے اور مالِ تجارت وغیرہ سے بھی کسب کرتا ہے، درست ہے یا نہیں ؟ جواب: صورتِ مسؤلہ میں دعوت قبول کرنا ایسے شخص کے یہاں ہر گز جائز نہیں ، خاص کر عالم دیندار کو کئی وجہ سے۔ ایک تو یہ کہ ایسے لوگ بدلیل شرعی فاسق ہیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول کرنے فاسقوں کے یہاں سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ مشکاۃ میں بروایت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کے ثابت ہوا: ’’عن عمران بن حصین قال: نھیٰ
[1] مقدمہ فتح الباری میں ہے: ’’افتتحت شرح الکتاب مستعینا بالفتاح الوہاب فأسوق إن شاء اللّٰه تعالیٰ الباب و حدیثہ أولا، ثم أذکر وجہ المناسبۃ بینھما إن کانت خفیۃ، ثم أستخرج ثانیاً ما یتعلق بہ غرض صحیح في ذلک الحدیث من الفوائد المتنیۃ والإسنادیۃ۔۔۔ إلی قولہ: منتزعا کل ذلک من أمھات المسانید والجوامع والمستخرجات والأجزاء والفوائد بشرط الصحۃ والحسن فیما أوردہ من ذلک‘‘ (أبو المعالي محمد علي غفرلہ ولوالدیہ) [2] فتاویٰ مولانا ابو المکارم مئوی (ص: ۳۹)