کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 671
اور جس میں نجاست خواری بکثرت تمام پائی جاتی ہوگی، ضرور وہ نجاست خواری پیشہ ہوگا۔ اس بیان سے ظاہر ہوگیا کہ مآل دونوں شقوں کا واحد ہے کہ جلالہ وہ ہے جو بہت بڑا نجاست خوار ہو اور بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ جلالہ ہونے کے لیے اسی قدر کہ بہت بڑا نجاست خوار ہو، کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے گوشت یا دودھ یا پسینے میں بھی اس نجاست کا اثر (رنگ یا بو یا مزہ) ظاہر ہوجائے، ورنہ جلالہ نہیں ہے۔ تعمقِ نظر کے بعد یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ گوشت یا دودھ یا پسینے میں نجاست کے اثر کا ظاہر ہونا اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ وہ نجاست ہنوز پورے طور سے مستحیل نہیں ہوئی ہے، ورنہ اگر نجاست پورے طور سے مستحیل ہوگئی ہوتی تو اس کا اثر گوشت وغیرہ میں ظاہر نہ ہوتا اور شریعت غرا میں اس کے گوشت اور دودھ کھانے اور اس پر سواری کرنے سے ممانعت ہو جاتی، کیونکہ شَے کے مستحیل ہوجانے کے بعد اس کا سابق حکم باقی نہیں رہتا۔ دیکھو گدھا جب نمکسار میں پڑ کر نمک بن جاتا ہے تو اس کا سابق حکم حرمت باقی نہیں رہتا، بلکہ حلال ہوجاتا ہے، اسی طرح منی جب نطفہ بن جاتی ہے یا نطفہ جب علقہ ہوجاتا ہے یا علقہ جب مضغہ بن جاتا ہے یا مضغہ جب عظام کی شکل میں آجاتا ہے یا عظام کے بعد جب گوشت چڑھ کر اور جان پڑکر آدمی بن جاتا ہے تو ہر ایک حالت لاحقہ پر حالتِ سابقہ کا حکم باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح جب مَیلا [فضلہ] کھیتوں میں پڑ کر مٹی ہوجاتا ہے یا مٹی ہو کر نباتی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کا سابق حکمِ نجاست اور حرمت باقی نہیں رہتا، بلکہ پاک اور حلال ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آدمی کی غذا جب براز بن جاتی ہے تو اس کا سابق حکم پاکی اور حلت باقی نہیں رہتا، بلکہ براز بن جانے کے بعد ناپاک اور حرام ہوجاتی ہے۔ اسی طرح پاک پانی میں جب نجاست پڑ جاتی ہے، جس سے اس کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جاتا ہے تو ناپاک ہوجاتا ہے اور دریا یا آبِ کثیر کہ ان میں کس قدر نجاست پڑتی ہے، لیکن چونکہ وہ نجاست مستحیل ہوجاتی ہے، اس لیے دریا یا آبِ کثیر ناپاک نہیں ہوتے۔ علی ہذا القیاس لاکھوں کیا کروڑوں ، بلکہ بے حد اس کی مثالیں پیش ہوسکتی ہیں ۔ الحاصل شریعتِ بیضا نے استحالہ کا وجوداً اور عدماً دونوں طرح سے اعتبار کیا ہے کہ اگر استحالہ پایا گیا تو حکم سابق جاتا رہا اور استحالہ نہیں پایا گیا تو حکم سابق باقی رہا۔ اس تقریر سے ثابت ہوگیا کہ جو بعض علما نے جلالہ ہونے کے لیے گوشت وغیرہ میں نجاست کا اثر ظاہر ہونا بھی شرط فرمایا ہے، یہی قول صحیح اور اصولِ شریعت کے موافق ہے، پس اس صحیح قول کے موافق جلالہ وہ نجاست خوار جانور ہے، جس کے گوشت یا دودھ یا پسینے میں اس نجاست کا اثر رنگ یا بو یا مزہ ظاہر ہو، جو اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ وہ نجاست ہنوز پورے طور سے مستحیل نہیں ہوئی ہے اور جو حدیث شریف میں اس کے گوشت اور دودھ کھانے اور اس پر سواری کرنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے، اس کی یہی وجہ ہے کہ اُس کا گوشت اور دودھ اور پسینہ ہنوز بو جہ نجاست کے مستحیل نہ ہوجانے کے نجس اور ناپاک ہے، پس اس کا گوشت اور دودھ کھانا در حقیقت نجاست کھانا ہے اور اس پر سواری کرنا اپنے بدن اور کپڑے کو اس کے نجس پسینے سے آلودہ کرنا ہے۔