کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 67
علامہ شرقاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "أي الکسب أفضل"کا مطلب ہے کہ کون سا پیشہ سب سے بہتر ہے، کیوں کہ سوال پیشوں کے بارے میں ہوا تھا، جیسا کہ جواب سے معلوم ہوتا ہے اور آدمی کا وصف عام ہے، جس کا کوئی مفہوم (مخالف) نہیں ہے۔ ہاتھ کی قید بھی کثرت کی بنا پر لگائی گئی ہے، اسی پر انھوں نے اپنے عمل کی بنیاد رکھی ہے اور اس حدیث میں صنعت و حرفت کی طرف اشارہ ہے۔ امام صنعانی (سبل السلام) شرح بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ اس میں دلیل ہے کہ تمام پیشے پاکیزہ ہیں ، جیسا کہ لوگوں کی طبیعتیں انھیں پسند کرتی ہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہ سوال کیا گیا تھا کہ کون سا پیشہ سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ یعنی سب سے زیادہ افضل اور برکت والا ہے۔ حلال تجارت کو ہاتھ کے عمل پر مقدم کرنا اس کے افضل ہونے کی دلیل ہے اور صحیح بخاری کی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی اور بتاتی ہے کہ صنعت و تجارت ہی سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں ۔ نیز اس حدیث سے اجرت پر کام کرنے کے جواز کی دلیل معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہاتھ کے ساتھ کام کرنا، دوسرے اور اپنے دونوں کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ کمائی کرنا ہاتھ اور کسی دوسرے آلے دونوں سے ہٹ کر بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بُنائی کرنا بھی ہاتھ سے کمائی کرنے ہی کا ایک فرد ہے، پس یہ تمام پیشوں میں سے افضل ہے، لہٰذا یہ طعن و تشنیع کرنے والا کہ اس پیشے کو اپنانے والا آدمی معزز نہیں اور یہ کہ اس کی عقل پچھواڑے میں ہے اور وہ حقیر شخص ہے، در حقیقت امت کے سلف و خلف میں طعن کرنے والا ہے، چنانچہ اس پر توبہ و استغفار کرنا واجب ہے، وگرنہ وہ ہلاکت کے گھر (جہنم) سے قبل ہی دنیا میں الله تعالیٰ کی طرف سے قبیح ترین عذاب کا حق دار ہوگا، کیونکہ اس نے ایک مسلمان کو، جو اپنے ہاتھ سے کام کر کے لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنے کا بندوبست کر رہا ہے، حقیر جان کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں اور اسے اپنے مرضیات کی توفیق سے نوازے۔ علاوہ ازیں اس حدیث ’’عرب کا ایک قبیلہ، دوسرے قبیلے کے، ایک خاندان دوسرے خاندان کے اور ایک شخص دوسرے شخص کا ہم پلہ (برابر) ہے، سوائے جولاہے اور حجام (سینگی لگانے والے) کے۔‘‘ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص میں فرماتے ہیں کہ اسے حاکم نے ابن جریج عن ابن أبي عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے اور ابن جریج سے روایت کرنے والے شخص کا نام مذکور نہیں ۔ امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: یہ جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصل نہیں اور ایک دوسری جگہ کہا کہ یہ باطل ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ’’تمہید‘‘ میں اسے بقیۃ عن زرعۃ، عن عمران بن أبي الفضل عن نافع عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے۔ دارقطنی نے علل میں کہا ہے کہ یہ (حدیث) صحیح نہیں ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عمران بن ابی الفضل ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے اپنے والد سے اس (حدیث) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یہ منکر ہے۔