کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 668
بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا: ۔۔۔ اس میں یہ بھی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (مالِ غنیمت) کو ان کے درمیان برابر تقسیم کیا] 2۔ بحر ضد ہے بر کا۔ بحر کا اطلاق ہر آب کثیر پر ہوتا ہے، میٹھا ہو یا کھاری، بستہ ہو یا جاری، ندی ہو یا تالاب یا پکھرا پکھری۔ پس بحر کا اطلاق اس دیار کے، بلکہ ہر ایک دیار کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں پر صحیح ہے اور بحکم آیتِ کریمہ﴿اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ﴾ ان ندیوں میں ، بلکہ تمام دنیا کی ندیوں میں شرعاً شکار کیا جا سکتا ہے۔ ’’مختار الصحاح‘‘ میں ہے: ’’البحر ضد البر‘‘[1] اھ [بحر بر کی ضد ہے] ’’لسان العرب‘‘ میں ہے: ’’البحر الماء الکثیر، ملحا کان أو عذبا، وھو خلاف البر‘‘[2] اھ [بحر بہت زیادہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے وہ کھارا ہو یا میٹھا اور وہ بر کی ضد ہے] خازن میں زیرِ آیتِ کریمہ﴿اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ﴾ ہے: ’’المراد بہ جمیع المیاہ العذبۃ والملحۃ بحرا کان أو نھرا أو غدیرا‘‘[3] اھ[اس (البحر) سے مراد تمام پانی ہیں ، میٹھے ہوں یا کھارے، بحر کے ہوں یا نہر کے یا غدیر (جوہڑ) کے] ’’فتح البیان‘‘ میں ہے: ’’المراد بالبحر ھنا کل ما یوجد فیہ صید بحري وإن کان نھرا أو غدیراً، فالمراد بالبحر جمیع المیاہ العذبۃ والمالحۃ‘‘[4] اھ [یہاں بحر سے مراد ہر وہ (پانی) ہے جس میں بحری شکار پایا جائے، اگرچہ وہ نہر یا جوہڑ ہو، پس بحر سے مراد تمام پانی ہیں وہ کھارے ہوں یا میٹھے] تفسیر ابو السعود میں ہے: ’’(صید البحر) أی ما یصاد في المیاہ کلھا، بحرا کان أو نھرا أو غدیرا‘‘[5] و اللّٰه تعالیٰ أعلم [(صید البحر) یعنی جو تمام پانیوں سے شکار کیا جاتا ہے، وہ پانی بحر میں ہو یا نہر میں یا جوہڑ میں ] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۸؍ ذي القعدۃ ۱۳۳۱ھ) ٭٭٭
[1] مختار الصحاح للرازي (ص: ۷۳) [2] لسان العرب (۴/ ۴۱) [3] تفسیر الخازن (۲/ ۹۵) [4] فتح البیان (۴/ ۵۵) [5] تفسیر أبي السعود (۳/ ۸۱)