کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 666
کتاب الصید و الذبائح مشرک اور رافضی کا ذبیحہ: سوال: مشرک کا ذبیحہ اور رافضی کا ذبیحہ جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں جائز ہے تو جو مسلمان تعزیہ پرستی اور قبر پرستی کرتا ہو اور انبیاسوال: کو اور اولیاے کرام کو حاضر و ناظر، حاجت روا جانتا ہو، وہ مشرک ہے یا نہیں اور ذبیحہ اس کا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب مدلل بہ آیت و حدیث تحریر فرمائیے۔ جواب: مشرک کا ذبیحہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر کسی آسمانی کتاب کے ماننے کا مدعی ہو، جیسے یہودی یا نصرانی، اس کا ذبیحہ جائز ہے، اس سے شیعہ اور تعزیہ پرست اور قبر پرست اور انبیاسوال: و اولیاے کرام رحمہم اللہ کو حاضر و ناظر و حاجت روا جاننے والے مسلمانان کے ذبیحہ کا حکم بھی نکل آیا، کیونکہ یہ سب لوگ بھی آسمانی کتاب (قرآن مجید) کے ماننے کے مدعی ہیں ۔ الله تعالیٰ نے یہودی و نصرانی کی طرف متعدد آیات میں اشراک کی نسبت کی ہے۔ ازاں جملہ یہ آیت (سورۂ براء ۃ، رکوع: ۵) ہے: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں ، کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں ] و با ایں ہمہ ان کا ذبیحہ حلال فرمایا۔ سورت مائدہ رکوع اول میں ہے:﴿وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ﴾ [المائدۃ: ۵] و اللّٰه أعلم بالصواب۔ [اور ان لوگوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) نو مسلم کا ذبیحہ: سوال: موضع دہڈسا کے مسلمانوں میں ایک مسئلے میں اختلاف پڑ گیا ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق کو کہتا ہے کہ ہم تمھارا ذبیحہ اس وجہ سے نہیں کھا سکتے کہ تمھارے باپ دادے ذبح نہیں کرتے تھے اور ہمارے باپ دادے ذبح کرتے تھے۔ دوسرا فریق یہ جواب دیتا ہے کہ ہمارے باپ دادے خواہ ذبح کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے، اس بات کو جانے دو،