کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 664
’’وعن عبد الرحمن بن أبي بکر رضی اللّٰه عنہ قال: کنا مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ثلاثین ومائۃ ثم جاء رجل مشرک مشعان طویل بغنم یسوقھا، فقال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( بیعا أم عطیۃ؟ )) أو قال: (( أم ھبۃ )) قال: لا بل بیع، فاشتری منہ شاۃ فصنعت‘‘[1]الحدیث (بخاري شریف، کتاب الہبہ، مطبوعہ مصر: ۲/ ۲۹ و ۶۰) [عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سو تیس (۱۳۰) آدمی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر پر) تھے، پھر ایک لمبا دھڑنگا مشرک شخص اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا آیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’بیچ رہے ہو یا عطیہ دے رہے ہو؟‘‘ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہبہ دے رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں ، بلکہ یہ فروخت کے لیے ہیں ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی جو بنائی گئی] فتح الباری (پارہ: ۲/ ۲/ ۵۰ مطبوعہ دہلی) میں ہے: ’’وجاء رسول ابن العلماء صاحب إیلۃ إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بکتاب وأھدی بغلۃ بیضاء، ولما انتھی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم تبوک أتاہ یوحنا بن روبۃ صاحب أیلۃ فصالح رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وأعطاہ الجزیۃ‘‘ انتھی [صاحبِ اَیلہ ابن العلماء کا ایلچی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خط لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید رنگ کا خچر بھی ہدیہ دیا۔ (محمد بن اسحاق کی مغازی میں ہے) جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچے تو صاحبِ اَیلہ یوحنا بن روبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، پھر اس نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کر لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیہ عطا کیا] نیز فتح الباری (۲/ ۵۴۵ مطبوعہ دہلی) میں ہے: ’’وفي حدیث علي عند مسلم أن أکیدر دومۃ أھدی للنبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ثوب حریر فأعطاہ علیا فقال: شققہ خمرا بین الفواطم‘‘[2] [صحیح مسلم میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اَکیدر دومہ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ریشمی کپڑا بطورِ ہدیہ بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا علی رضی اللہ عنہ کو عنایت فرما دیا اور فرمایا: اس کو پھاڑ کر فاطموں (فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ام علی فاطمہ اور فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب) کو اوڑھنیاں بنا دو] اس مذکورہ بالا بیان سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ سودی مال حرام نہیں ہے۔ سود اور سودی مال دونوں قطعی حرام ہیں ۔ ہاں یہ سمجھنا بھی چاہیے کہ سودی مال جو حرام ہے، سود لینے والے کے حق میں حرام ہے اور اس کی جواب دہی آخرت میں اسی کے ذمہ ہے اور اس شخص کے حق میں حرام نہیں ہے، جو اس سود لینے والے سے جائز وجہ سے حاصل کرے، کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس قسم کے اموال ویسے لوگوں سے جائز وجہوں سے حاصل کیے جاتے تھے،
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۴۷۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۵۶) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۷۱)