کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 652
أجزنا ما أمر بہ المیت، ینصرف الإجازۃ إلی الوصیۃ، لأنھا مأمورۃ، لا إلی الھبۃ، ولو قال الورثۃ: أجزنا ما فعلہ المیت، صحت الإجازۃ في الھبۃ والوصیۃ جمیعا‘‘ (أیضاً، ص: ۵۱۳) [ہمارے نزدیک وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ دوسرے وارث اس کی اجازت دیں ۔ اگر وہ اپنے مرض میں وارث کو کوئی چیز ہبہ کرے یا اس کے حق میں کسی چیز کی وصیت کرے اور اس کے نفاذ کا حکم دے تو شیخ امام ابوبکر محمد بن الفضل رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں (ہبہ و وصیت) باطل ہوں گی۔ پھر اگر باقی وارث اس کے اس فعل کی اجازت دے دیں اور کہیں کہ میت نے جو حکم دیا ہے، ہم نے اس کی اجازت دے دی تو یہ اجازت وصیت کی طرف لوٹے گی، کیونکہ وہی مامور ہے، نہ کہ ہبہ کی طرف اور اگر وارث کہیں کہ میت نے جو کیا ہے ہم نے اس کی اجازت دے دی تو پھر یہ ہبہ اور وصیت دونوں میں اجازت صحیح ہوگی] ایضاً فتاویٰ عالمگیری (۶/ ۱۶۸ مطبوعہ کلکتہ) میں ہے: ’’إذا أقر مریض لامرأۃ بدین أو أوصیٰ لھا بوصیۃ أو وھب لھا ھبۃ، ثم تزوجھا، ثم مات، جاز الإقرار عندنا، وبطلت الوصیۃ والھبۃ‘‘ [جب کوئی مریض کسی عورت کے لیے قرض کا اقرار کرے یا اس کے حق میں کوئی وصیت کرے یا اسے کوئی ہبہ دے، پھر وہ اس عورت سے شادی کرے اور پھر فوت ہوجائے تو ہمارے نزدیک اس کا (قرض کا) اقرار تو درست ہوگا، جب کہ ہبہ اور وصیت باطل ہوگی] ’’الدر المختار‘‘ بر حاشیہ طحطاوی (۴/ ۲۱۸ مطبوعہ مصر) میں ہے: ’’وتبطل ھبۃ المریض ووصیتہ لمن نکحھا بعدھما أي بعد الھبۃ والوصیۃ، لما تقرر أنہ یعتبر لجواز الوصیۃ کون الموصیٰ لہ وارثا أو غیر وارث وقت الموت، لا وقت الوصیۃ۔۔۔ فلأنھا إیجاب مضاف إلی ما بعد الموت، وھي وارثۃ حینئذ، والوصیۃ للوارث باطلۃ بغیر إجازۃ، وأما الھبۃ وإن کانت منجزۃ صورۃ فھي کالمضافۃ إلی ما بعد الموت حکما، لأنھا وقعت موقع الوصایا، لأنھا تبرع یتقرر حکمہ عند الموت‘‘ و اللّٰه تعالیٰ أعلم [ایسے مریض کا ہبہ اور وصیت اس عورت کے حق میں باطل ہوں گے جس سے اس نے ہبہ اور وصیت کے بعد شادی کر لی ہو، کیونکہ یہ بات طَے شدہ ہے کہ وصیت کے جواز کے لیے موصی لہ کا وارث ہونا یا وارث نہ ہونا موت کے وقت معتبر ہے نہ کہ وصیت کے وقت۔۔۔ کیوں کہ وہ ایک ایسی چیز کو واجب کرتا