کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 65
ایک بوسیدہ مشکیزہ بن گیا۔‘‘
صحیح بخاری ہی میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت ایک بُنی ہوئی حاشیہ دار چادر لے کر آئی اور اس نے کہا: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ چادر میں نے اپنے ہاتھوں سے بنی ہے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہناؤں ۔
صحیح بخاری میں ابو حازم کی حدیث مروی ہے کہ چند اشخاص سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس منبر سے متعلق پوچھنے کے لیے آئے تو انھوں نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت (سہل رضی اللہ عنہ نے اس کا نام لیا تھا) کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے بڑھئی غلام کو حکم دو کہ وہ میرے لیے لکڑی (کا منبر) بنائے، جس پر لوگوں سے بات چیت کرتے وقت میں بیٹھ جایا کروں ، چنانچہ اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا تو وہ جنگل کی ایک لکڑی جھاؤ سے منبر بنا کر لے آیا۔ پھر اس عورت نے وہ منبر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھنے کا حکم دیا، پھر اس کے اوپر بیٹھے۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ وہ شخص جو اپنی پیٹھ پر لکڑی کا گھٹا اٹھا کر لائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے بھیک مانگے تو کوئی دے یا نہ دے۔
سنن ابی داود میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مانگنے کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں ! ایک معمولی چادر ہے، جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور دوسرا حصہ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے، جس میں ہم پانی پیتے ہیں ۔ فرمایا: وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ انھیں لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا: کون یہ خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دو درہم لے کر انصاری کو دیے اور فرمایا: ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر والوں کو دے دو اور دوسرے کا ایک کلہاڑا خرید لو اور میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونک دیا، پھر فرمایا: جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور میں تمھیں پندرہ دن نہ دیکھوں ۔
صحیح بخاری میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ انصار قبیلے کا ایک شخص تھا، جسے ابو شعیب کہا جاتا تھا، اس کا ایک غلام قصاب تھا تو اس (ابو شعیب) نے کہا: میرے لیے کھانا تیار کرو، میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ افراد کے ساتھ بلانا چاہتا ہوں ، پھر اس نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے امام، رئیس اور بڑے شخص کا اپنے سے کم تر کی دعوت قبول کرنا اور معمولی پیشے سے، جیسے قصاب ہے، وابستہ افراد کا کھانا کھانا مستفاد ہوتا ہے اور یہ کہ اس طرح کا پیشہ اپنانا اس کے مکروہات سے اجتناب کرنے والے کی قدر و منزلت کم کرتا ہے نہ اس کو اپنانے سے اس کی شہادت رد ہوتی ہے۔ صحیح بخاری کے روات میں سے بعض محدثین موچی تھے، جن کا نام یونس بن ابی الفرات الاسکاف ہے، وہ جوتا سازی کا کام کرتے تھے۔