کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 649
حیات میں سب وارثانِ پسر متوفی کو ہماری کل جائداد و منقولہ و غیر منقولہ کو تقسیم کر کے مالک و قابض کر دو، تاکہ بعد ممات ہماری با خودہا تم لوگوں کے اور وارثان پسر متوفی مذکور کے نزاع نہ رہے اور اس بڑے بیٹے منتظم یعنی وکیل مذکور نے بحیثیت وکالت اپنی حکم مذکور کی تعمیل کر دی، یعنی جائداد مذکورہ کو تقسیم کر کے ہر ایک موہوب لہ کو اس کے حصہ کا مالک و قابض کر دیا اور ہر ایک موہوب لہ نے اس کی کار روائی کو بخوشی و رضا اپنی قبول و منظور کر لیا اور اس تاریخ سے ہر ایک موہوب لہ اپنی اپنی جائداد موسومہ پر مالکانہ قابض ہو کر اس میں متصرف ہوگیا اور اب تک ہے تو اب تملیک کے پائے جانے میں کیا شک باقی رہا؟ پس یہ ہبہ و تقسیم صحیح ہے اور ایک موہوب لہ کا یہ عذر کہ اس تحریر میں لفظ مالک کر دینے کا نہیں لکھا ہے، صحیح نہیں ہے۔ ’’عن أنس رضی اللّٰه عنہ قال: أتانا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في دارنا ھذہ فاستسقیٰ فحلبنا شاۃ لنا ثم شبتہ من ماء ببئرنا ھذہ فأعطیتہ، وأبو بکر عن یسارہ، و عمر تجاہہ، و أعرابي عن یمینہ، فلما فرغ قال عمر: ھذا أبو بکر، فأعطی الأعرابي فضلہ ثم قال: (( الأیمنون الأیمنون ألا فیمنوا )) قال أنس: فھي سنۃ، فھي سنۃ‘‘[1]و اللّٰه أعلم بالصواب [انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اس گھر میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب کیا۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی ایک بکری کا دودھ دھویا، پھر میں نے اس میں اپنے اس کنویں کا پانی ملایا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ پیش کر دیا۔ (اس وقت) ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب تھے، عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پی کر) فارغ ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں (گویا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انھیں دودھ دینے کا کہہ رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا اس اعرابی کو دیا (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف تھا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دائیں طرف والے (زیادہ حق دار ہیں ) پھر ان کے بعد کے دائیں طرف والے۔ آگاہ رہو! پہلے دائیں طرف والوں کو دو۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سنت ہے، یہ سنت ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح، و المجیب نجیح۔ عبد الغني نور پوري عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب ھکذا۔ وصیت علی عفا اللّٰه عنہ۔ المجیب مصیب عندي، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ أبو محمد إبراہیم۔ الجواب صحیح۔ شیخ حسین بن محسن عرب۔ تاریخ ۵؍ شعبان ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۶؍ مارچ ۱۸۹۱ء۔ جواب دیگر صورت مسؤلہ میں ہبہ و تقسم بلا شبہہ صحیح ہے، اس میں شک سراسر بے وجہ ہے۔ کسی خیال صحیح پر مبنی نہیں ہے۔ شک کی بنا صرف اس خیال پر ہے کہ جب تک لفظِ مالک کر دینے کا نہ لکھا جائے، ہبہ صحیح نہیں ہوتا اور اس تحریر
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۴۳۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۲۹)