کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 642
[نیز جو امام احمد اور ابن ماجہ رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔ عبادہ بن کثیر الشامی اہلِ فلسطین سے روایت کرتے ہیں ، وہ فسیلہ نامی اپنی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ بھی عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت رکھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، عصبیت تو یہ ہے کہ آدمی ظلم میں (اپنی قوم کی) مدد کرے] تیسری صورت کی ناجوازی کی دلیل ہے: قولہ تعالیٰ:﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾ (بني إسرائیل، رکوع: ۴) [اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں ] وما رواہ أبو داود و ابن ماجہ عن بریدۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( القضاۃ ثلاثۃ، واحد في الجنۃ، واثنان في النار، فأما الذي في الجنۃ فرجل عرف الحق فقضیٰ بہ، ورجل عرف الحق فجار في الحکم فھو في النار، ورجل قضی للناس علی جھل فھو في النار )) [1] (مشکوۃ شریف، باب العمل في القضاء والخوف منہ، فصل ثاني) [نیز جو امام ابو داود اور ابن ماجہ رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔ بریدہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاکم تین طرح کے ہیں : دو دوزخی اور ایک جنتی، جس حاکم نے حق والے کا حق پہچان لیا اور اسی کے مطابق فیصلہ بھی کیا، وہ حاکم جنتی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تو پہچان لیا، لیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کیا، بلکہ جان بوجھ کر حق کے خلاف فیصلہ کیا، وہ حاکم دوزخی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تک بھی دریافت نہیں کیا اور یوں ہی بے سمجھے بوجھے فیصلہ سنا دیا، وہ حاکم بھی دوزخی ہے] اس حدیث میں جو وعید ہے، اگرچہ قضا علی جہل میں وارد ہے، یعنی اس قاضی کے بارے میں جو حق و ناحق کی تحقیق نہیں کرتا اور یوں ہی انڈ کا سنڈ فیصلہ کر دیا کرتا ہے، لیکن اصل معصیت جو مناط وعید ہے، یعنی بلا تحقیق حق و ناحق کے ایک جانب کا طرفدار ہوجانا، یہ امر اس قضا اور صورت ثالثہ وکالت دونوں میں مشترک ہے تو ناجوازی کا حکم بھی دونوں میں مشترک ہوگا اور روایتِ بیہقی: (( من أعان علی خصومۃ لا یدري أحق أم باطل، فھو في سخط اللّٰه حتی ینزع )) [2] (مشکوۃ شریف باب الحدود فصل ثاني) [جس نے کسی جھگڑے پر اعانت کی جب کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ حق ہے یا باطل تو وہ الله کی ناراضی میں رہتا ہے، حتی کہ وہ اس سے دست کش ہوجائے] کی بالخصوص صحت یا عدمِ صحت معلوم نہیں ، کیونکہ بیہقی یہاں موجود نہیں ہے کہ اس میں اس کی سند دیکھ کر کچھ حکم لگایا جائے، لیکن اس کے
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۷۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۳۲۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۳۱۵) سنن النسائي الکبریٰ (۳/ ۴۶۱) المستدرک (۴/ ۹۰) بلوغ المرام (۱۳۹۷) [2] شعب الإیمان (۷/ ۵۱۰) یہ حدیث صحیح ہے۔