کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 641
اول صورت جائز ہے اور دوسری و تیسری صورت ناجائز۔ پہلی صورت کے جواز کی دلیل ہے: قولہ تعالیٰ:﴿تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی﴾ (سورۂ مائدۃ، رکوع: ۱) [اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو] وقولہ تعالیٰ:﴿مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا﴾ (سورۂ نساء، رکوع: ۱۱) [جو کوئی سفارش کرے گا، اچھی سفارش، اس کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہوگا] وما رواہ أحمد و أبو داود عن عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما مرفوعاً: (( من خاصم في باطل، وھو یعلمہ، لم یزل في سخط اللّٰه تعالیٰ حتی ینزع )) [1] [نیز جو امام احمد اور ابو داود رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے کہ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے: جس نے جانتے بوجھتے ہوئے باطل (کی حمایت) میں جھگڑا کیا تو وہ الله کی ناراضی میں رہے گا، حتی کہ اس سے باز آجائے] وما رواہ أبو داود عن واثلۃ بن الأسقع رضی اللّٰه عنہ قال: قلت: یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ! ما العصبیۃ؟ قال: (( أن تعین قومک علی الظلم )) [2] [نیز جو امام ابو داود رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! عصبیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اپنی قوم کے لوگوں کی مدد کرے، حالانکہ وہ ظلم پر ہوں ] وعن سراقۃ بن مالک بن جعشم رضی اللّٰه عنہ قال: خطبنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: (( خیرکم المدافع عن عشیرتہ ما لم یأثم )) [3] [سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنے قبیلے کا دفاع کرے، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو] وما رواہ أحمد و ابن ماجہ عن عبادۃ بن کثیر الشامي عن أھل فلسطین عن امرأۃ منھم یقال لھا: فَسِیْلَۃُ، إنھا قالت: سمعت أبي یقول: سألت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقلت: یا رسول اللّٰه ! أمن العصبیۃ أن یحب الرجل قومہ؟ قال: ((لا، ولکن من العصبیۃ أن ینصر الرجل علی الظلم )) [4] (مشکوۃ شریف باب الشفاعۃ في الحدود فصل ثاني و باب المفاخرۃ والعصبیۃ فصل ثاني و ثالث) [5]
[1] مسند أحمد (۲/ ۷۰) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۹۷) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۱۱۹) اس کی سند میں ’’سلمۃ بن کثیر الدمشقي‘‘ راوی ضعیف ہے۔ [3] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۱۲۰) یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد امام ابو داودa فرماتے ہیں : ’’أیوب بن سوید ضعیف‘‘ [4] مسند أحمد (۴/ ۱۰۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۹۴۹) اس کی سند میں ’’عباد بن کثیر‘‘ راوی متروک ہے۔ درحقیقت یہ وہی حدیث ہے، جو اوپر واثلہ بن ا سقع رضی اللہ عنہ کے حوالے سے گزری ہے۔ [5] مشکاۃ المصابیح (۳/ ۶۴)