کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 640
صفحہ ( ۳۷۴) میں ہے: ’’والمراد بھذا الجار الملاصق۔۔۔ الخ‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب [اور اس پڑوسی سے مراد وہ ہے جو بالکل متصل ہو۔۔۔ الخ] کتبہ: محمد عبد اللّٰه شفعہ کا حق دار کون ہے؟ سوال: زید نے اپنی زمین، جس کے قطعات متعددہ ہیں ، بعض عمرو کی زمین سے متصل ہیں اور بعض بکر وغیرہ کی زمین سے، خالد کے ہاتھ فروخت کر دی، جو قوم کا حجام دوسرے محلہ کا باشندہ ہے۔ اب عمرو نے بکر وغیرہ دیگر شرکاے شفعہ کی اجازت اور رضا مندی سے دعویٰ حقِ شفعہ کیا، بلکہ بکر وغیرہ اس امر میں عمرو کی امداد شفعہ دلانے میں کرتے ہیں ۔ اب شفیع کا شفیع بن کر مستحق شفعہ اس زمین مبیعہ غیر اتصالی کا، جس کا شفعہ بکر عمرو کو دے چکا ہے، ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا۔ جواب: حقِ شفعہ اسی شخص کو پہنچتا ہے جو زمین مبیعہ میں یا اس کے کسی حق (راستہ وغیرہ) میں شرکت رکھتا ہو اور جو شخص ان دونوں میں سے کسی میں شرکت نہ رکھتا ہو، اس کو حق شفعہ نہیں پہنچتا۔ (( فإذا وقعت الحددود وصرفت الطرق فلا شفعۃ )) [1] (صحیح بخاري) [پھر جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہے] حنفی مذہب میں اس شخص کو بھی حق شفعہ پہنچتا ہے، جو نہ نفس مبیع میں شریک ہو اور نہ اس کے کسی حق میں ، لیکن زمین مبیعہ کا جار ملاصق ہو، جب یہ بات معلوم ہوئی تو اب جاننا چاہیے کہ بکر وغیرہ جو زمین مبیعہ کے بعض قطعات کے جار ملاصق ہیں ، ان کو ازروئے مذہب حنفی صرف انھیں بعض قطعات میں جو ان کی زمین کے متصل ہیں ، حق شفعہ پہنچتا ہے، نہ عمرو کو جس کی زمین کو ان قطعات سے اتصال تک نہیں ہے، تو اس صورت میں عمرو ان قطعات مذکورہ میں اصالتاً مدعی شفعہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر بکر وغیرہ اصالتاً مدعی شفعہ ہوں اور عمرو کو اس مقدمہ شفعہ کا وکیل بنائیں تو عمرو صرف وکالتاً اس مقدمہ کی پیروی کر سکتا ہے و بس۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه وکالت کی شرعی حیثیت: سوال: وکالت و بیرسٹری جو محکمہ جات عدالت و فوجداری میں مروج ہے، کیا گورنمنٹ انگریزی کیا ریاست حیدر آباد وغیرہ جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: وکالت کی تین صورتیں ہیں : 1۔ وکالت امور معلوم الجواز والحقیۃ میں ، یعنی ایسے امور میں جن کو وکیل جانتا ہو کہ یہ امور شرعاً جائز و حق ہیں ۔ 2۔ وکالت امور معلوم عدم الجواز والبطلان میں ، یعنی ایسے امور میں جن کو وکیل جانتا ہو کہ یہ امور شرعاً باطل و ناجائز ہیں ۔ 3۔ وکالت امور غیر معلوم الجواز والبطلان میں ، یعنی ایسے امور میں جن کو وکیل نہیں جانتا کہ یہ امور شرعاً جائز و حق ہیں یا ناجائز و ناحق۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۰۹۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۰۸)