کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 638
فروخت کر دی، جو قوم کا حجام دوسری پٹی اور محلہ کا باشندہ ہے اور بستی میں کسی قسم کی شراکت اور ملکیت نہیں رکھتا۔ اب عمرو زید کا ہم قوم ہمسایہ محلہ دار جس کی زمین کے بعض قطعے زید کی زمین بیع شدہ سے ملصق اور اکثر متفرق سو سو قدم یا کم و بیش کے فاصلہ پر ہیں ۔ زمین مبیعہ میں سے کچھ زمین ایسی بھی ہے، جو اب تک عمرو کی زمین سے مشترک غیر مقسومہ ہے۔ شرعاً استحقاقِ شفعہ بہ قیمت اصلی بازاری رکھتا ہے یا نہیں ؟ یعنی جو قیمت بدنیتی سے زیادہ کی گئی ہے، اس کو کم کرا سکتا ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا۔ جواب: اگر زید نے زمین مذکور اصلی قیمت سے زیادہ پر ایک اجنبی شخص (خالد) کے ہاتھ بہ نیت اسقاطِ حق شفعہ فروخت کی ہے تو زید کا یہ حیلہ ناجائز ہے اور عمرو اس صورت میں استحقاقِ شفعہ قیمت اصلی بازاری سے رکھتا ہے، یعنی جس زمین میں وہ استحقاق شفعہ رکھتا ہے، اس زمین کو بذریعہ شفعہ اصلی بازاری قیمت سے لے سکتا ہے۔ صحیح بخاری مع فتح الباری (۲/ ۴۰۷ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’قال أبو رافع (لسعد بن أبي وقاص) لو لا أني سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( الجار أحق بسقبہ )) ما أعطیتکھا بأربعۃ آلاف، وإنما اُعطیٰ بھا خمس مائۃ دینار فأعطاھا إیاہ‘‘[1] [ابو رافع نے سعد بن ابی وقاص کو کہا: اگر میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا: ’’پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے (شفعے کا) زیادہ حق دار ہے‘‘ تو میں تمھیں چار ہزار کے عوض ہرگز یہ گھر نہ دیتا، جب کہ مجھے اس گھر کے پانچ سو دینار مل رہے ہیں ، چنانچہ انھوں (ابو رافع) نے وہ گھر ان (سعد بن ابی وقاص) کو دے دیا] صفحہ (۳۶۷) میں ہے: قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد )) [2] [جس نے ہمارے طریقے سے ہٹ کر کوئی کام کیا تو وہ مردود ہے] اگر زید نے بیع مذکور نیک نیتی سے کی ہے اور بہ نیتِ اسقاط حق شفعہ نہیں کی ہے تو اگر بیع مذکور اولاً اصلی قیمت سے ہوئی تھی، پھر بعد کو اس پر قیمت زیادہ کی گئی تو اس صورت میں بھی عمرو استحقاقِ شفعہ اسی اصلی بازاری قیمت سے رکھتا ہے، کیونکہ جس وقت بیع مذکور اصلی قیمت سے ہوئی تھی، اسی وقت عمرو کو اسی اصلی قیمت سے استحقاقِ شفعہ حاصل ہو چکا تھا۔ پھر بعد کو قیمت بڑھا کر عمرو کے اس استحقاق ثابت کو باطل کر دینا عمرو کو ضرر پہنچانا ہے اور یہ امر ناجائز ہے۔ ہدایہ (۲/ ۳۸۲ چھاپہ مصطفائی) میں ہے: ’’وإن زاد المشتري للبائع، لم یلزم الزیادۃ في حق الشفیع، لأن في اعتبار الزیادۃ ضررا بالشفیع لاستحقاقہ الأخذ بما دونھا‘‘ اھ [اگر خریدار فروخت کنندہ کو کچھ زائد قیمت دے تو شفعہ کرنے والے کے حق میں یہ زائد رقم لازم نہیں ہوگی، کیونکہ زائد رقم کے اعتبار کے ساتھ شفعہ کرنے والے کو اس سے کم قیمت پر اپنا حق وصول کرنے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۱۳۹) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۱۸) نیز دیکھیں : صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۵۰)