کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 636
ما نحن فیہ میں یہ دونوں شرطیں مفقود ہیں ۔ اول تو اس لیے کہ جب دونوں نے مال بطورِ قرض حاصل کر لیا تو دونوں مال کے مالک ہوگئے تو خالی ہاتھ باقی نہ رہے اور ثانی کا فقدان عبارتِ سوال سے متبادر ہے اور مسئلہ مذکورہ اعتراض کے علی الاطلاق صحیح نہ ہونے کی تائید مسئلہ ذیل سے بھی بخوبی ہوتی ہے، جو فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۴۵۱) میں مندرج ہے: ’’قال الخجندي: ویجوز للأب والوصي أن یشترکا بمال أنفسھما مع مال الصغیر، ولو کان رأس مال الصغیر أکثر من مال رأس مالھما، فإن أشھدا یکون الربح علی الشرط، وإن لم یشھدا یحل فیما بینھما وبین اللّٰه تعالیٰ، لکن القاضي لا یصدقھما، ویجعل الربح علی قدر رأس المال، کذا في السراج الوھاج‘‘ اھ [خجندی نے کہا ہے: باپ اور وصی کے لیے جائز ہے کہ وہ صغیر کے مال کے ساتھ اپنے مالوں کے ساتھ شرکت کریں ۔ اگرچہ صغیر کا اصل مال ان دونوں کے اصل مال سے زیادہ ہو، پس اگر ان دونوں کو گواہ بنایا جائے تو نفع شرط کی بنیاد پر ہو گا اور اگر ان کی گواہی نہ دلوائی جائے تو یہ معاملہ ان دونوں اور الله کے درمیان ہوگا، لیکن قاضی ان کی تصدیق نہیں کرے گا اور نفع اصل مال کی مقدار کی بنیاد پر تقسیم کرے گا۔ ’’السراج الوھاج‘‘ میں بھی ایسے ہی ہے] وجہ تائید یہ ہے کہ اس مسئلے میں طفل صغیر جو تجارت میں باپ کا شریک ہے، نفع میں بھی باپ کا شریک مانا گیا ہے اور اگر مسئلہ مذکورہ اعتراض علی الاطلاق صحیح ہوتا تو اس مسئلے میں بھی طفل مذکور نفع میں شریک نہ مانا جاتا۔ وإذ لیس فلیس، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه اپنے خاص پیداواری مال میں دوسرے بھائیوں کی شرکت: سوال: زید زمانہ دراز تک ملازمت کرتا رہا اور کل آمدنی اپنی ہمیشہ اپنے والدین و بھائی کار پردازان کو دیتا چلا آیا، جس کے ذریعے سے جائداد جدید و مال و اسباب وغیرہ میں علاوہ توروثی کے بفضلہ بہت ترقی ہوئی ہے۔ دورانِ ملازمت میں زید شروع سے اخیر تک اپنے ذاتی اخراجات وغیرہ کا ایک مقررہ حصہ بطورِ تنخواہ وصول کر لیتا تھا، جس میں سے بھی کفایت و انتظام وغیرہ کی وجہ سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ بچت ہوتی گئی اور وہ بچت ہمیشہ علیحدہ ہوتی رہی۔ غرض عرصہ بائیس سال کی بچت ایک تھوڑی رقم ہوگئی۔ زید عرصہ دو برس کا ہوا، ملازمت چھوڑ کر اسی بچت بائیس سال کے روپیوں سے جو خاص پیدا کردہ زید کا ہے، جمیع ورثاء سے قطع تعلق کر کے علاوہ کاروبار موروثی مشترکہ کے کچھ کاروبار دیگر، یعنی تجارت کر رہا ہے، زید کے مورث کو انتقال کیے ہوئے بھی عرصہ دو برس کا ہوا۔ بوقت تقسیم مال موروثی جمیع ورثا کا حصہ ازروئے شرع برابر ہوگا یا وہ پیدا کردہ جائداد مال اسباب خاص ملازم زید کی سمجھی جائے گی اور صرف موروثی اموال میں تقسیم ہوگی؟ جواب: اگر صورتِ مذکورہ سوال میں زید اور اس کے والدین اور بھائی کارپردازان مکان کے درمیان اس امر کا معاہدہ