کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 635
’’رد المحتار‘‘ (۲/ ۳۴۱) میں ہے: ’’قولہ: مع التفاضل في المال (دون الربح) أي بأن یکون لأحدھما ألف وللآخر ألفان مثلاً، و اشترطا التساوي في الربح۔ وقولہ: و عکسہ أي بأن یتساوی المالان، ویتفاضلا في الربح، لکن ھذا مقید بأن یشترطا الأکثر للعامل منھما أو لأکثرھما عملاً۔۔۔ الخ‘‘ [اس کا قول: مال میں برابر نہ ہونے کے ساتھ (نفع کے سوا) یعنی مثلاً: ایک کا مال ایک ہزار اور دوسرے کا دو ہزار ہو اور ان دونوں نے نفع میں برابری کی شرط لگائی ہو اور اس کا یہ قول: اور اس کے برعکس ’’یعنی مال میں وہ دونوں برابر ہوں اور نفع میں برابر نہ ہوں ، لیکن یہ اس بات کے ساتھ مقید ہے کہ وہ عامل کے لیے زیادہ (نفع) کی شرط لگائیں یا اس کے لیے جو کام زیادہ کرنے والا ہو ۔۔۔ الخ] اور اگر اس شرکت میں ابتدائے حالت کا لحاظ کیا جائے، یعنی صرف شرکتِ ملک کا اعتبار کیا جائے اور شرکتِ عقد سے قطع نظر کیا جائے، تب بھی پسرِ کلاں کا دعویٰ مذکورہ درست ہے، کیونکہ شرکتِ ملک میں اصول یہ ہے کہ جس قدر مال میں ترقی ہوتی ہے، ہر ایک شریک بقدر اپنی اپنی ملک کے اس کا مالک ہوتا ہے اور جب صورتِ مسؤلہ میں دونوں (باپ بیٹے) اصل مال میں برابر کے شریک ہیں ، تو جس قدر ترقی ہوئی ہے، اس میں بھی دونوں برابر کے مالک ہوں گے۔ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۴۰۶) میں ہے: ’’وحکمھا أي حکم شرکۃ الملک علی قدر الملک‘‘ اھ [اور ان دونوں کا حکم، یعنی شرکتِ ملک کا حکم ملک کی مقدار کی بنیاد پر ہے] الحاصل صورتِ مسؤلہ میں پسرِ کلاں کا دعویٰ مذکورہ ہر طرح درست ہے۔ اگر یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ جب باپ بیٹے مل کر کوئی پیشہ کریں تو ایسی صورت میں کل کمائی باپ ہی کی قرار دی جاتی ہے اور بیٹا صرف معین سمجھا جاتا ہے، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۳۳۶) اور در مختار (۳/ ۳۴۹) میں ہے: ’’الأب والابن یکتسبان في صنعۃ واحدۃ، ولم یکن لھما شيء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن في عیالہ لکونہ معینا لہ‘‘ اھ [باپ اور بیٹا ایک ہی پیشے میں کام کرتے ہوں اور دونوں کے پاس کچھ نہ ہو تو تمام آمدنی باپ کی ہوگی بشرطیکہ بیٹا اس کے عیال میں ہو، اس لیے کہ وہ اس کا معین شمار ہوگا] تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں صحیح ہے کہ باپ بیٹے دونوں مل کر کوئی پیشہ کریں اور دونوں خالی ہاتھ ہوں ، یعنی کچھ نہ رکھتے ہوں اور بیٹا باپ کے عیال میں بھی ہو، یعنی بیٹے کا باپ پر بوجہ اس بیٹے کے نابالغ ہونے کے یا کسی اور وجہ سے نفقہ واجب ہو، چنانچہ ان دونوں شرطوں کی تصریح خود عبارت منقولہ اعتراض میں موجود ہے۔ یعنی: یعني قولہ: ’’ولم یکن لھما شییٔ‘‘ وقولہ: ’’إن کان الابن في عیالہ‘‘ [اس کا یہ قول کہ ان دونوں کے پاس کچھ نہ ہو اور اس کا یہ قول کہ بیٹا اس کے عیال میں ہو]