کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 634
[شرکت ملک ہے، یہ کہ متعدد افراد دو یا اس سے زیادہ اصل مال کے مالک ہوں ۔۔۔ وراثت کے ذریعے یا بیع کے ذریعے یا ان کے علاوہ کسی بھی سبب کے ذریعے] لیکن اس کے بعد جب دونوں نفع و نقصان تجارت میں نصفا نصف کے شریک ہوگئے اور اسی کے مطابق تاحیات زید متوفی برابر کارروائی کرتے آئے، جیسا کہ عبارتِ سوال میں مصرح ہے تو یہ شرکت شرکتِ عقد ہوگئی اور شرکتِ عقد تین طرح کی ہوتی ہے: شرکت بالمال۔ شرکت بالوجود۔ شرکت بالاعمال۔ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۴۰۷ چھاپہ کلکتہ) میں ذخیرہ سے منقول ہے: ’’أما شرکۃ العقود فأنواع ثلاثۃ: شرکۃ بالمال، وشرکۃ بالوجود، و شرکۃ بالأعمال‘‘ اھ[رہی شرکتِ عقود تو اس کی تین قسمیں ہیں : 1۔شرکت بالمال 2۔شرکت بالوجود 3۔شرکت بالاعمال] یہ شرکت اقسام ثلاثہ مذکورہ میں سے پہلی قسم (شرکت بالمال) ہے اور یہ ظاہر ہے، پھر شرکت بالمال کی بھی دو قسمیں ہیں : 1۔مفاوضہ و2۔ عنان۔ اگر شرکت بالمال میں شریکوں کا مالاً و ربحاً و تصرفاً و نفعاً و ضرراً مساوی ہونا شرط ہو تو شرکت مفاوضہ ہے، ورنہ عنان ہے۔ فتح القدیر (۲/ ۸۱۳ چھاپہ نول کشور) میں ہے: ’’العقد إما أن یذکر فیہ مال أو لا، وفي الذکر إما أن تذکر المساواۃ في المال وربحہ وتصرفہ ونفعہ وضررہ أو لا، فإن شرطا ذلک فھو المفاوضۃ وإلا فھو العنان‘‘ اھ [عقد میں مال کا ذکر ہوگا یا نہیں ، ذکر کی صورت میں مالاً و ربحاً و تصرفاً ونفعاً و ضراً مساوی ہونا شرط ہوگیا یا نہیں ، اگر شرط ہو تو یہ شرکت مفاوضہ ہے ورنہ عنان] تو اس شرکت میں بھی اگر امور مذکورہ میں مساوات شرط تھی تو مفاوضہ ہوگی، ورنہ عنان ہوگی اور دونوں صورتوں میں یعنی خواہ یہ شرکت مفاوضہ ہو یا عنان ہو، پسر کلاں کا دعویٰ مذکورہ درست ہے۔ مفاوضہ کی صورت میں تو درست ہونا ظاہر ہے، اس لیے کہ مفاوضہ میں مالاً و ربحاً مساوات شرط ہی ہے، جیسا کہ فتح القدیر سے معلوم ہوا۔ نیز فتاویٰ قاضی خان (۴/ ۴۹۴ چھاپہ نولکشور) میں ہے: ’’ویتساویان في رأس المال (إلی قولہ) ویشترط التساوي في الربح أیضاً‘‘ اھ [اصل مال میں وہ مساوی ہوں گے۔۔۔ نفع میں بھی برابری کی شرط ہوگی] در مختار (۳/ ۳۳۷) میں ہے: ’’وتساویا مالا تصح بہ الشرکۃ، وکذا ربحا کما حققہ الوالي‘‘ اھ [مال اور نفع میں برابری کی بنیاد پر شرکت درست ہے جیسا کہ والی نے اس بات کو ثابت کیا ہے] عنان کی صورت میں اس لیے درست ہے کہ عنان میں اگرچہ مساوات مذکورہ شرط نہیں ہے، بلکہ جائز ہے کہ دونوں شریک اصل مال میں برابر نہ ہوں اور نفع میں برابر ہوں یا اصل مال میں برابر ہوں اور نفع میں برابر نہ ہوں ، بلکہ جو شریک تجارت کے کاروبار کو تنہا انجام دیتا ہو یا اور شریک سے زیادہ تجارت کا کام کرتا ہو، اس کو نفع میں زیادہ حصے کا مستحق ٹھہرانا بھی جائز ہے اور اس صورت میں وہ زیادہ حصہ کا مستحق ہوگا اور جب وہ زیادہ حصے کا مستحق ہوا تو نصف کا تو بطریق اولیٰ مستحق ہے۔