کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 632
جو مال ادھار بیچا ہے، اس کا دام وصول کر دے اور اگر وصول نہ کرے تو حاکم اس کو وصول کر دینے پر مجبور کرے۔ اگر مضارب نے اس مضاربت میں ہنوز ربح حاصل نہیں کیا ہے تو اس پر واجب ہے کہ رب المال کو وصول کرنے میں اپنا وکیل کر دے کہ رب المال خود وصول کر لے۔ جیسا کہ جواب نمبر3 میں گزرا ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ 5۔ ایسی صورت میں مضارب سے تاوان شرع شریف دلواتی ہے، بشرطیکہ عقدِ مضاربت میں یہ قید ہو کہ مضارب اس صورت میں غاصب ہے اور غاصب پر تاوان واجب ہے۔ جیسا کہ جواب4 میں گزرا ہے۔ اگر عقدِ مضاربت میں قید مذکور نہ ہو تو ایسی صورت میں مضارب سے تاوان شرع شریف نہیں دلواتی، کیونکہ مضارب اس صورت میں امین ہے اور امین پر ضمان (تاوان) نہیں ہے۔ ’’الودیعۃ أمانۃ في ید المودع، إذا ھلکت لم یضمنھا‘‘ (ہدایۃ: ۳/ ۲۷۱) [ودیعت مستودع کے پاس ایک امانت ہوتی ہے کہ اگر وہ تلف ہوجائے تو مستودع اس کا ضامن نہیں ہوتا ہے] و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ 6۔ اگر رب المال اور مضارب عقدِ مضاربت فسخ کر دیں اور مضارب اس مضاربت میں ربح حاصل کر چکا ہو تو اس صورت میں مضارب کا صرف اس قدر کہہ دینا جو مندرجہ سوال ہے، اس کی براء ت کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ اس پر ذمہ داری عائد ہوگی۔ وہ یہ کہ جو لہنا پڑ گیا ہے، اس کو وصول کرے اور اگر وہ وصول نہ کرے تو حاکم اس کو وصول کرنے پر مجبور کرے۔ اگر مضارب نے اس مضاربت میں ربح حاصل نہیں کیا ہے، تو اس پر وصول کر دینا واجب نہیں ہے، ہاں اس پر یہ واجب ہے کہ رب المال کو لہنا وصول کرنے میں اپنا وکیل کر دے کہ رب المال خود وصول کر لے۔ جیسا کہ جواب 3 میں گزرا ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ 7۔ اس نمبر کا جواب نمبر4 کے جواب میں ادا ہو چکا ہے، ملاحظہ ہو۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۶؍ جمادی الأولی ۱۳۳۱ھ) لگان اراضی کی شرعی حیثیت: سوال: افزایش زرِ لگان بابت جوت اراضی رعایا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: جائز ہے۔ اگر تحمل سے زائد نہ ہو اور بھی خلاف اس کے معاہدہ نہ ہوا ہو۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ، مدرس أول مدرسہ أحمدیہ آرہ۔ غلے کے بدلے زمین کاشت کے لیے دینا: سوال: کھیت کسی مرد مسلمان یا ہنود وغیرہ کو غلہ بر وزن مقرر کر کے دینا، مثلاً: یہ شرط کر لے کہ ہم پانچ من فی بیگہہ لیں گے اور کوئی مدت مقرر نہ کرے یا مدت متعین کر دے، بہر نوع شرعاً کیسا ہے؟ جواب: کھیت کسی کو بونے کے لیے غلہ معینہ پر وزن مقرر کر کے دینا، خواہ کوئی مدت بھی مقرر کرے یا نہ کرے، یعنی