کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 630
صنوف التجار وما ھو من صنیع التجار والتوکیل من صنیعھم‘‘ (ہدایہ: ۳/ ۲۵۷) [جب مضاربتِ مطلقہ صحیح ہے تو مضارب کے لیے جائز ہے کہ وہ فروخت کرے، خریدے، کسی کو اس کام کا وکیل بنائے، مال ساتھ لے کر سفر کرے اور مال کسی کے پاس ودیعت رکھے، کیونکہ عقدِ مضاربت تو مطلق ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ نفع حاصل کیا جائے اور نفع تو تجارت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ عقد تجارت کی تمام اقسام کو شامل ہے اور تجارت جو کچھ کیا کرتے ہیں ، یہ ان کی تجارت ہوگی اور حال یہ ہے کہ خرید و فروخت کے لیے وکیل کرنا بھی تاجروں کے کاموں سے ہے] ’’ویملک المضارب في المطلقۃ البیع (إلی قولہ) و الإیداع والرھن والارتھان و الإجارۃ والاستیجار‘‘[1](تنویر الأبصار) [اور مضارب، مضاربتِ مطلقہ میں بیع کرنے ، ایداع، رہن، دینے لینے، اجارہ اور استیجار کا مالک ہے] ’’والأصل أن التصرفات في المضاربۃ ثلاثۃ أقسام: قسم ھو من باب المضاربۃ وتوابعھا فیملکہ من غیر أن یقول لہ: اعمل ما بدا لک، کالتوکیل بالبیع والشراء والرھن والارتھان والاستیجار‘‘ (رد المحتار: ۴/ ۴۸۵) [اصل یہ ہے کہ مضاربت میں تصرفات کی تین قسمیں ہیں : جن میں سے ایک قسم مضاربت اور اس کے توابع کے باب سے ہے، لہٰذا وہ مال والے کے یہ کہے بغیر ’’(اس مال کے ساتھ) جو مرضی کرو‘‘ اس میں تجارت کرنے کا مالک ہوگا، جیسے توکیل، بیع و شراء، رہن، ارتہان اور استیجار ہے] اس مسئلے کی ایک نظیر اجارہ کا یہ مسئلہ ہے: ’’وإذا شرط علی الصانع أن یعمل بنفسہ فلیس لہ أن یستعمل غیرہ (إلی) وإن أطلق لہ العمل فلہ أن یستأجر من یعمل، لأن المستحق عمل في ذمتہ، ویمکن استیفاء۔ہ بنفسہ و بالاستعانۃ بغیرہ بمنزلۃ إیفاء الدین‘‘ (ہدایۃ: ۳/ ۲۹۴) [اگر مستاجر نے کاری گر کے ذمے یہ شرط عائد کی ہو کہ وہ بذاتِ خود کام کرے تو کاری گر کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ دوسرے سے یہ کام لے۔۔۔ اگر مستاجر نے اس کو کام کے لیے مطلقاً اجارہ دیا تو اسے اختیار ہے کہ وہ کسی اور سے کام کروا دے، کیونکہ اس کے ذمے کام کا استحقاق ہے اور اس کو پورا کرنا اس طرح بھی ممکن ہے کہ وہ بذاتِ خود یہ کام کرے اور اس طرح بھی کہ وہ کسی دوسرے کے ذریعے سے کرے اور یہ قرض ادا کرنے کی طرح ہے] 3۔ اگر مضارب اور رب المال عقدِ مضاربت فسخ کر دیں اور مضارب اس مضاربت میں (ربح) نفع حاصل کر چکا ہو تو اس صورت میں مضارب پر واجب ہے کہ جو مال ادھار بیچا ہے، اُس کا دام وصول کرے اور اگر وصول نہ
[1] الدر المختار (۵/ ۶۴۹)