کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 629
2۔ کیا مضارب کو اختیار ہے کہ خود تجارت میں محنت نہ کرے اور کسی نوکر پر کارخانہ کو چھوڑ دے اور جو شرط یا سمجھوتہ پہلے تھا، اسی کے موافق منافع لینے کا بھی مستحق ہوگا؟ 3۔ کیا مضارب پر واجب ہے کہ جو مال ادھار بیچا ہے، اس کو وصول کرے اور وصول نہ کر سکے یا نہ کرائے تو اپنے پاس سے ادا کرے یا اس کو ادھار کا صرف حساب بتا دینا کافی ہے اور رب المال کو واجب ہوگا کہ دام وصول کرتا پھرے؟ 4۔ اگر مضارب نے سارا مال فروخت کر ڈالا، اس طور پر کہ جو رقم نقد آتی رہی، اس کو کھا لیا کرتا تھا اور جو ادھار بیچتا تھا، اس کو وصول نہیں کرتا تھا، یہاں تک کہ سارا راس المال غائب ہوگیا تو ایسی صورت میں رب المال اپنی رقم کس سے وصول کرے گا؟ 5۔ اگر مضارب نے بجائے اس کے کہ خود دیکھ بھال کیا کرتا اور تجارت میں کوشش کرتا، کسی آدمی کو مقرر کر دیا، جس نے سارا مال بیع کر کے کھا لیا یا ادھار پر فروخت کر ڈالا تو ایسی صورت میں تاوان شرع شریف دلواتی ہے یا نہیں ؟ 6۔ کیا مضارب کا یہ کہہ دینا کہ کچھ نفع نہیں ہوتا ہے اور لہنا، یعنی بقایا بہت پڑ گیا ہے۔ رب المال اگر چاہے تو مال موجود اور لہنا وغیرہ کا حساب لے لے۔ اس کی براء ت کے لیے کافی ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوسکتی؟ 7۔ کیا اگر مضارب کبھی نفع نہ دے اور خود برابر لیتا رہے اور بعد چند سال کے جب مالک اپنے مال اور منافع کا مطالبہ کرے تو یہ کہہ دے کہ دکان میں مال بہت کم اور بے میل رہ گیا ہے اور بہت لہنا پڑ گیا ہے تو اس سے اس کی براء ت ہو سکتی ہے یا شرع شریف اس سے اصل منافع دلوائے گی؟ جواب: 1۔ایک ہی شخص مضارب اور رب المال نہیں ہوسکتا۔ ’’لأن المضاربۃ تنعقد شرکۃ علی مال رب المال وعمل المضارب، ولا مال ھھنا للمضارب، فلو جوزناہ یؤدي إلی قلب الموضوع‘‘ و اللّٰه تعالیٰ أعلم (ہدایہ: ۳/ ۲۶۶ مطبع یوسفي) [ کیونکہ مضاربت میں شرکت اسی وقت منعقد ہوتی ہے، جب مال والے کی طرف سے مال ہو اور مضارب کی طرف سے کام ہو اور یہاں مضارب کی طرف سے کچھ مال نہیں ہے۔ پس اگر ہم اس کو جائز قرار دیں تو لازم آئے گا کہ مضاربت جس معنی کے لیے موضوع ہے وہ اُلٹ گیا] 2۔ مضارب کو اختیار ہے کہ خود تجارت میں محنت نہ کرے اور کسی نوکر پر کارخانہ کو چھوڑ دے اور جو شرط اور سمجھوتہ پہلے تھا، اُسی کے موافق منافع لینے کا بھی مستحق ہوگا، بشرطیکہ عقدِ مضاربت میں یہ قید نہ ہو کہ مضارب خود تجارت میں محنت کرے اور کسی نوکر پر کارخانہ کو نہ چھوڑ دے۔ ’’وإذا صحت المضاربۃ مطلقۃ جاز للمضارب أن یبیع ویشتري ویوکل ویسافر ویودع لإطلاق العقد المقصود منہ الاسترباح ولا یتحصل إلا بالتجارۃ فینتظم