کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 623
جواب: اگر آڑھت کے کام میں پیشگی روپیہ دینے کی شرط نہیں ہے، بلکہ پیشگی روپیہ دینا بطورِ احسان ہے تو اس صورت میں آڑھت کی آمدنی سود میں داخل نہیں ہے، بلکہ آڑھت والے کا حق المحنت ہے اور اگر پیشگی روپیہ دینے کی شرط ہے تو ایک حصہ آمدنی مذکور کا داخل سود ہے۔ و اللّٰه اعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه خرید و فروخت میں ناجائز شرط کو پورا کرنا: سوال: بعض ریاستِ ہنود میں یہ دستور ہے کہ جس قدر آمدنی سالانہ ریاست کی ہوتی ہے، تفصیل وار خرچ ریاست اور پوجا پاٹ وغیرہ کاغذات میں درج ہوتا ہے، مثلاً فی ایک روپیہ ۴؍ خرچ خاص اور ۴؍ تنخواہ ملازمان اور ۴؍ پوجا پاٹ دیوتا بھیرو وغیرہ اور ۴؍ داخل خزانہ۔ بایں طور اس ریاست میں جب گاؤں یا زمین ٹھیکہ اور زمینداری کے طور پر کسی کے ساتھ بندوبست کرتے ہیں تو پٹہ زمینداری اور رسیدات سالانہ میں تصریح امورات مذکورہ کی ہوا کرتی ہے، مثلاً: اگر رسید مبلغ ایک سو روپیہ کی ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ مبلغ ۲۱ آنے خرچ خاص اور مبلغ ۲۱ آنے تنخواہِ ملازمان اور مبلغ ۲۱ آنے بغرض پوجا بھیروناتھ، جو ان کے یہاں ایک بڑا بت ہے اور مبلغ ۲۱ آنے داخل خزانہ سرکاری اور بعض ریاستوں میں رسوم ناجائز یا جائز کے لیے بحساب فی روپیہ ایک آنہ یا دو آنے علی التفصیل مصارف بڑھاتے ہیں اور کل مجموعہ کو محصول زمین یا گاؤں قرار دیتے ہیں ، چنانچہ اس کی تفصیل بھی رسیدات اور کاغذات وغیرہ میں کر دیتے ہیں ۔ بہر حال کوئی بھی ریاست غیر اسلامی ایسی نہیں ہے جس میں بعض مصارف شرکیہ نہ ہوں ، البتہ اجمال اور تفصیل کا کہیں کہیں فرق ضرور ہے۔ پس از روے شرع شریف ایسی ریاستوں میں ٹھیکہ یا زمینداری لکھانا درست ہے یا نہیں اور جن مسلمانوں نے ایسا کیا ہے، یعنی زمینداری یا ٹھیکہ ایسی ریاستوں میں لیا ہے ،اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگرچہ سوال میں فی الجملہ تفصیل ہے، مگر چونکہ میں پوری طور پر ایسی ریاستوں کے ٹھیکہ یا زمینداری سے واقف نہیں ہوں ، لہٰذا صرف ایک اصولی بات لکھتا ہوں جو یہ ہے:﴿ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ [المائدۃ: ۲] [اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو] پس اگر ریاستہائے مذکورہ کا ٹھیکہ یا زمینداری اس اصول کے تحت میں آتا ہو تو ناجائز ہے، ورنہ جائز ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ تعلیمِ قرآن شریف پر اجرت لینی جائز ہے یا نہیں ؟ سوال: تعلیمِ قرآن شریف پر اجرت لینی جائز ہے یا نہیں ؟آپ کا خادم: عبدالرحمن، وارد حال مدرسہ اسلامیہ بلرام پور۔ محلہ چکنی۔ ضلع گونڈہ جواب: تعلیمِ قرآن شریف پر اُجرت لینی جائز ہے یا نہیں ؟ اس باب میں دلائلِ فریقین مع مالہ وما علیہ کتاب فتح الباری (۴/ ۳۷۲ و ۹/ ۱۹۳ مصری) و ہدایہ ’’باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘[1] و تفسیر زیر آیتِ کریمہ:﴿وَ لاَ تَشْتَرُوْا
[1] الھدایۃ (۳/ ۲۳۸)