کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 619
بکذا إلا إذا قال من أول الأمر نسیئۃ بکذا فقط، وکان أکثر من سعر یومہ مع أن المتمسکین بھذہ الروایۃ یمنعون من ھذہ الصورۃ، ولا یدل الحدیث علی ذلک فالدلیل أخص من الدعویٰ، وقد جمعنا رسالۃ في ھذہ المسئلۃ وسمیناھا شفاء الغلل في حکم زیادۃ الثمن لمجرد الأجل، وحققناھا تحقیقا لم نسبق إلیہ‘‘[1]و اللّٰه أعلم بالصواب۔ [ الله نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام‘‘ نیز فرمایا: ’’ایماندارو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھایا کرو۔‘‘ ہاں اگر رضا مندی سے تجارت ہو تو درست ہے۔ نیل الاوطار (۵/ ۱۳) میں شافعیہ، حنفیہ اور جمہور کا یہی مذہب مذکور ہے۔ جو لوگ ادھار کی وجہ سے وقتی نرخ سے زیادہ لینا حرام سمجھتے ہیں ، ان کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ایک بیع میں دو بیع کرے، اسے چاہیے کہ یا تو کم لے لے یا پھر سود کھائے۔ اس حدیث کی سند میں محمد بن عمرو بن علقمہ ضعیف ہے،[2] پھر اس کا جواب یہ بھی ہے کہ اس کے معنی اور بھی تو ہوسکتے ہیں ، مثلاً: ایک آدمی ایک ٹوپہ گندم ایک روپیہ میں ایک مہینے کی میعاد پر لیتا ہے، ایک مہینے کے بعد گندم لینے والا مطالبہ کرے تو دینے والا کہے کہ میرے پاس اس وقت گندم نہیں ہے تو دو مہینے کے بعد مجھ سے دو ٹوپہ گندم لے لینا۔ ایک بیع میں دو بیع کرنے کا یہ مطلب ہے، اس صورت میں کم قیمت پر بیع کرنا ضرور ہوگا، ورنہ زیادتی، جو دوسری بیع میں کی جا رہی ہے، وہ سود شمار ہوگی۔ ابن رسلان کی شرح السنن میں ایسا ہی ہے۔ اگر ایک چیز کی دو قیمتیں بتائے نقد کی اور، اور ادھار کی اور تو اس صورت کو مانعین نے ناجائز کہا ہے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر ادھار کی قیمت وقتی نرخ سے زیادہ بتائے اور وقتی نرخ بتائے تو اس صورت میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس کی تفصیل ایک مستقل رسالے میں بیان کی ہے، جس کا نام ’’شفاء الغلل في حکم زیادۃ الثمن لمجرد الأجل‘‘ ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه ، عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین سودی بیع اور نقد ادھار خرید و فروخت میں فرق کرنا: سوال: 1۔ ایک شخص نے ایک شخص سے مبلغ دس روپیہ لیا، اس شرط پر کہ آیندہ پوس مہینے میں فی روپیہ ایک من غلہ دوں گا۔ بایع یعنی روپیہ دینے والے نے بھی اس شرط کو قبول کر لیا۔ جب یوم معہود پہنچا تو بائع نے غلہ طلب کیا۔ مشتری نے عذر پیش کیا کہ امسال غلہ تو ہوا ہی نہیں ، بائع نے زجر و توبیخ کا آغاز کیا کہ مجھ کو ایک من غلہ دے دو، اس وقت ازروے نرخ خرید و فروخت کے دس من غلہ کے یہ نرخ تین روپیہ من کے حساب سے مبلغ تیس روپیہ ہوتے
[1] نیل الأوطار (۵/ ۲۱۴) [2] حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’صدوق لہ أوھام‘‘ (تقریب التھذیب، ص: ۴۹۹)