کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 617
[جس طرح ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو زیادہ دے یا زیادہ لے تو اس نے سود کا لین دین کیا] اور ربا حرام ہے: لقولہ تعالیٰ:﴿ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ: ۲۷۵] [اور سود کو حرام کیا] وقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( درھم ربا یأکلہ الرجل، وھو یعلم أشد من ست و ثلاثین زنیۃ )) [1] (المنتقی، باب التشدید فیہ) و اللّٰه تعالیٰ أعلم [آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو شخص جانتے ہوئے ایک درہم سود کھاتا ہے تو یہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سنگین ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ) توبہ کے بعد سودی مال کی حلت اور گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا: سوال: 1۔زید نے ایک زمانے تک سود لیا، بعدہ اس نے سود سے توبہ کیا۔ اب وہ سودی مال بعد توبہ کرنے کے پاک ہوگا یا نہیں اور اس کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے یا نہیں اور غیر شخص سود خوار کے یہاں کھا سکتا ہے یا نہیں ؟ 2۔ زید کاشتکاری کرتا ہے، اُسی کاشت میں سے سرکار کی مال گزاری دیتا ہے یا جس زمیندار کی زمین ہے، اس کو نصف غلہ بانٹ دیتا ہے۔ آیا اس کے اوپر عشر واجب ہے یا نہیں اور سرکار کی مال گزاری کچھ کسی شمار میں ہوگی یا نہیں ؟ 3۔ زید، جو مرتہن ہے، اشیاے مرہونہ ذوی العقول و غیر ذوی العقول، یعنی اراضیات وغیرہ سے نفع اُٹھا سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر اٹھا سکتا ہے تو کس دلیل سے اور ذوی العقول میں تو صراحت ہے کہ بعوض نفقہ کے، لیکن غیر ذوی العقول میں کس کے عوض میں نفع اٹھا سکتا ہے؟ جواب: 1۔زید نے جو سودی مال حاصل کیا تھا، بعد توبہ کے وہ سودی مال پاک ہوگیا، اس کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔ ﴿ فَمَنْ جَآۂ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ﴾ [سورۂ بقرۃ، رکوع: ۳۸] [پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے، پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا، وہ اسی کا ہے] ﴿ مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ﴾ [سورۂ فرقان، رکوع آخر] [جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں الله نیکیوں میں بدل دے گا] جو شخص سودی مال حاصل کرے، وہ مال اس کے حق میں حرام ہے، کیونکہ اس نے اس مال کو باطل اور ناجائز طور سے حاصل کیا ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (سورۂ بقرۃ، رکوع: ۲۳ و سورۂ نساء، رکوع: ۵) [اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ] لیکن دوسرے شخص کو، جس کو وہ مال زید کے ہاتھ سے مشروع اور جائز طور سے حاصل ہوا ہو، اس کے حق میں وہ مال حرام نہیں ہے، کیونکہ اس دوسرے
[1] مسند أحمد (۵/ ۲۲۵) السلسلۃ الصحیحۃ، رقم الحدیث (۱۰۳۳)