کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 616
وعن أبي بردۃ بن أبي موسیٰ قال: قدمت المدینۃ فلقیت عبد اللّٰه بن سلام، فقال: إنک بأرض فیھا الربا فاش، فإذا کان لک علی رجل حق فأھدی إلیک حمل تبن أو حمل شعیر أو حبل قت فلا تأخذہ فإنہ ربا )) [1] (رواہ البخاري، مشکوۃ، ص: ۲۳۸) [ابو بردہ بن ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں ، میں مدینے گیا تو میں نے عبد الله بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو انھوں نے فرمایا: تم ایسے ملک میں رہتے ہو، جہاں سود عام ہے، جب تمھارا کسی پر کوئی حق ہو اور وہ گھاس کا ایک گٹھا یا جَو یا جنگلی ہرے چارے کا ایک گٹھا بطورِ ہدیہ بھیجے تو اسے نہ لو، کیونکہ وہ سود ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه بلاشک مرتہن کو شے مرہونہ سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور سود میں داخل ہے، لیکن سواری یا دودھ والا جانور اگر مرہون ہو تو اس شرط کے ساتھ کہ اس کا نفقہ مرتہن کے ذمہ ہوئے تو مرتہن کو فائدہ اٹھانا جائز ہے، جیسا کہ حدیث مذکور بجواب صاف دلالت کرتی ہے۔ اس پر مکان مرہون کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ جانور کی زندگی کا دارومدار کھلانے پلانے پر ہے، اگر یہ بات نہ ہو گی تو وہ ضائع ہوجائے گا، مکان کی یہ کیفیت نہیں ۔ کما لا یخفی و اللّٰه أعلم۔ کتبہ: محمد عبد الجبار عمر پوری سوال: ایک شخص نے اپنی اراضی بعوض مبلغ سو روپیہ پر ایک شخص کے پاس رہن رکھ دی، اس شرط پر کہ تم میری اراضی قبضہ میں رکھ کر نفع حاصل کرو، جب میں سو روپیہ تمھارا دے دوں تو میری اراضی تم چھوڑ دو، نفع اراضی کا میں کچھ حساب تم سے نہیں لوں گا۔ ایسا معاملہ کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جواب: ایسا معاملہ کرنا درست نہیں ہے، اس پر ربا کی صریحاً تعریف صادق آتی ہے اور ربا حقیقتاً حرام ہے، لقولہ تعالیٰ:﴿وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ: ۲۷۵] و اللّٰه أعلم بالصواب سوال: زید نے بکر سے ایک قطعہ زمین رہن لیا اور اراضی رہن کی مالگزاری مرتہن (زید) ادا کرتا ہے اور تا اداے روپیہ کے اس رہن داری میں شرط ہے کہ اس رہن کی پیدا وار، زید اپنے مَصرف میں لائے تو ایسی حالت میں شرعاً بہ قرآن و حدیث اس زمین کی فصل کھانا زید کو جائز ہے یا ناجائز؟ جواب: ایسی حالت میں زید کو اس زمین کی فصل (پیداوار) میں سے بقدر مال گزاری (جس قدر زید کو اُس میں مال گزاری ادا کرنی پڑتی ہے) کھانا جائز ہے اور اس قدر سے زائد زید کو کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس قدر سے زائد پر ربا کی تعریف صادق آتی ہے۔ کما في حدیث أبي سعید من قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( فمن زاد أو استزاد فقد أربیٰ )) [2] (رواہ أحمد و مسلم، المنتقی باب ما یجري فیہ من الربا)
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۶۰۳) [2] مسند أحمد (۳/ ۶۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۵۸۴)