کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 611
کر جو تیرے پاس حاضر نہیں اور نہ وہ چیز جو تیری ملکیت سے خارج ہے اور تیرے زیرِ اثر نہیں ۔ امام بغوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث میں جو نہی اور ممانعت ہے، وہ بعینہٖ ان چیزوں سے ہے، جن کا فروخت کنندہ مالک نہ ہو۔ لیکن وہ چیز جو اس کی ذمہ داری میں ہے تو اس میں مع شروط بیع سلم کرنا جائز ہے۔۔۔ اس نہی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو چیز انسان کی ملکیت و قدرت میں نہ ہو، اس کو فروخت کرنا حرام ہے، نہ کہ وہ چیز جو اس کی قدرت اور اختیار میں ہو۔ بیع سلم اس سے مستثنیٰ ہے۔ لہٰذا اس کے جواز کے دلائل اس عموم کو خاص کرنے والے ہوں گے۔ اسی طرح جو بیچی جانے والی چیز خریدار کے ذمے ہو، کیونکہ وہ حاضر اور قبضے کے حکم میں ہے] (( ما لیس عندک )) سے صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیع (بعد اس کے کہ بائع وقتِ بیع خود اس کا مالک ہو یا منجانب مالک اس کی بیع کرنے کا مجاز ہو اور اس کی دلیل وہی عدمِ جواز تصرف در ملک غیر بلا اذن ہے، باستثنائِ سلم) مبیع بوقتِ بیع بائع کے قابو و قدرت میں ہو کہ خریدار کو بعد بیع کے تسلیم کر سکے۔ صورت مسؤلہ میں خواہ خریدار خود بائع سے کہے کہ مجھے دوسری دکان سے لادو یا منگا دو اور بائع خود دوسری دکان سے لائے یا منگائے، خریدار کے ہاتھ جتنے دام کو چاہے بیچے، بشرطیکہ کسی قسم کی دغا کو اس میں دخل نہ ہونے پائے تو یہ بیع ما لیس عندک میں داخل نہیں ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۵؍ جمادی الثاني ۱۳۳۲ھ) قرض میں شرط اور چمڑے کی تجارت: سوال: اس شہر کے چمار جو تھوڑی پونجی سے دیہات سے چمڑا خرید کر شہری کو کم نفع پر فروخت کیا کرتے تھے اور اس تجارت سے یہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے، پس زید نے الله پر بھروسا کر کے چند نفوس کو ایک ایک سو روپیہ باہم پیشگی اس شرط پر دیا کہ اس روپیہ سے دیہات کا چمڑا خرید کر لاؤ، ہم تمھارا لایا ہوا چمڑا دساور جا کر یا دساور سے خریدار کو بلوا کر معقول نفع کے ساتھ فروخت کرا دیں گے اور بعد فروختگی اپنا حق المحنت ایک روپیہ ۴ آنے لے لیں گے۔[1] جواب: 1۔عبارتِ سوال سے جو سوال کا مطلب ظاہر ہوتا ہے، یہ ہے کہ زید نے جو روپیہ چاروں کو دیا، بطورِ قرض کے دیا، پس چمار اس صورت میں اس روپے کے مالک ہوگئے اور زید کو ان سے صرف اپنے روپے کے مطالبہ کا حق باقی رہا، پھر جب چماروں نے اس روپے سے جو چمڑے خریدے، وہ چمڑے بھی انھیں کے ملک ہوگئے اور زید نے جو ان چمڑوں کو دساور جا کر یا دساور سے خریدار کو بلوا کر معقول نفع کے ساتھ فروخت کر دیا، زید اس صورت میں ان کا دلال ہوگیا اور جو زید نے ایک روپیہ چار آنہ حق المحنت ان سے لیا، وہ زید کی دلالی ہوئی، ایسے معاملے کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ بجز اس کے معلوم نہیں ہوتی کہ زید نے جو روپیہ چماروں کو قرض دیا، وہ ایک شرط پر دیا، جو سوال میں مذکور ہے اور یہ شرط اس معاملے کے جواز کو مشتبہ کر دیتی ہے، لہٰذا یہ شرط اگر اس معاملے سے ساقط کر دی جائے
[1] اصل مسودے میں ایک ہی سوال مذکور ہے۔ اور بقیہ چار سوال ساقط ہیں ۔