کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 61
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں : ’’مستدرک حاکم میں ایک سخت ضعیف سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ داود ( علیہ السلام ) زرہ ساز تھے، آدم ( علیہ السلام ) کسان تھے، نوح ( علیہ السلام ) بڑھئی تھے، ادریس ( علیہ السلام ) درزی تھے اور موسیٰ ( علیہ السلام ) چرواہے تھے۔‘‘ دیکھو! کس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ حدیث کی سند سخت ضعیف ہے! پھر دیکھو یہ جاہل شخص کتنی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ وہ ثابت ہے؟ لیکن اگر اس کے نزدیک ثبوت سے مراد صحت اور حسن سے قطع نظر صرف حدیث کا وارد ہونا ہے تو دیلمی نے مسند فردوس میں انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے بُنائی کا پیشہ اختیار کیا، وہ آدم علیہ السلام تھے۔ چنانچہ اس معترض کے دعوے کے مطابق دیلمی کی روایت کردہ اس حدیث کا قبول کرنا بھی لازم ہے، اگرچہ وہ ضعیف ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اس حدیث کا انکار نہ کرے، لوگوں کو حقیر جاننے اور ان کی عزتوں میں طعن و تشنیع میں جلد بازی نہ کرے، کیونکہ یہ اہلِ جاہلیت اور تکبر پسند لوگوں کا شیوہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ [الحجرات: ۱۱] [اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا برا نام ہے اور جس نے توبہ نہ کی، سو وہی اصل ظالم ہیں ] نیز فرمایا: ﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾[الحجرات: ۱۳] [اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادے سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ تقوے والا ہے] صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یقیناً رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، جو اس پر ظلم کرتا ہے، اسے رسوا کرتا ہے اور نہ اسے کمتر سمجھتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سینے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ کسی آدمی کے بدتر ہونے کے لیے یہی کافی